پڑوسیوں کے حقوق کی اہمیت

شرحِ حدیث

پڑوسی کے حقوق کی اہمیت

*مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

محسنِ انسانیت  ، حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَه ترجمہ: جو اللہ  اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے  اُسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی  کا اکرام کرے۔ ([1])

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک تعلیمات انسانیت کی حقیقی محافظ ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ستھرے اور انسان دوست معاشرے کی بنیاد رکھی۔ آپ  کی انسانیت پر احسان  والی تعلیمات  میں سے یہ حدیثِ پاک بھی ہے جس میں ہمسائے کے اکرام کو ایمان کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ پڑوسی کے اکرام کے بارے میں علامہ زرقانی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: یعنی خندہ پیشانی اور بشاشت  سے ملے، اسے خیر اور نفع پہنچائے، اس سے تکلیف کو دور کرےاور اگر اُس کی جانب سے اِسے کوئی پریشانی پہنچے تو اسے برداشت کرے۔([2])

پڑوسی کسے کہتے ہیں؟

جب ہمسائے کے حقوق کی بات ہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ہمسایوں میں کون کون شامل ہے چنانچہ  حضور نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کچھ صحابہ کو مسجد کے دروازے پر جاکر یہ اعلان کرنے کا ارشاد فرمایا:سن لو!40گھر پڑوس میں داخل  ہیں۔([3])

حضرت سیِّدُنا امام زُہری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: 40 گھر دائیں ، 40بائیں ، 40آگے اور40 گھر پیچھے ، اس طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چاروں جانب اشارہ فرمایا۔([4])

قریبی پڑوسی کون ؟

پارہ5سُورَۂ نِسَآء کی آیت نمبر36  کے تحت  تفسیراتِ احمدیہ میں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دُور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دُور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دُور کا ہمسایہ ہے۔([5])

اس بات کو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے:پڑوسی3 قسم کے ہیں، بعض کے 3 حق ہیں، بعض کے 2 اور بعض کا ایک حق ہے۔ جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو،اس کے 3 حق ہیں۔حقِ جوار اور حقِ اسلام اور حقِ قَرابت۔ مسلم پڑوسی کے 2 حق ہیں، حقِ جوار اور حقِ اسلام اورغیرمسلم پڑوسی کا صرف ایک حقِ جوار ہے۔([6])

پڑوسی کا حق کیا ہے؟

کئی مواقع پر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے  پڑوسی کے حقوق کو مفصل بھی بیان فرمایا چنانچہ ایک  موقع پر  فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ یہ کہ جب وہ تم سے مدد مانگے، مدد کرو اور جب قرض مانگے، قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو تو  عِیادَت کرو اور جب اسے بھلائی پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور وفات پا جائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ اوراس کی اجازت کے بغیر اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی کی خوشبوسے  اس کو ایذا نہ دومگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو اور پھل  خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اورتمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رَنج ہوگا۔  تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں ، وہی ہیں جن پر اللہ پاک  کی مہربانی ہے۔([7])

پڑوسیوں کےعام حقوق

احادیث مبارکہ کی روشنی میں حضرت سَیِّدُنا امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے پڑوسیوں کے جو  حُقُوق بیان کیے ہیں، ہمیں لازمی جاننے چاہئیں، چنانچہ  لکھتے ہیں:

*پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے۔

*ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔

*ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے۔

*جب وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرے۔

* مُصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے۔

*مُشکل وقت میں ان کا ساتھ دے۔

*خوشی میں ان کو مبارک باد دے۔

*ان کی خوشی میں شرکت کرے۔

*ان کی لغزشوں کو مُعاف کرے۔

* اپنے گھر کی چھت پرسے ان کے گھر میں مت جھانکے،

*ان کی دیوار پرشہتیر رکھ کر،ان کے پرنالے میں پانی گِرا کر اور ان کے صحن میں مٹی وغیرہ ڈال کر انہیں  تکلیف نہ پہنچائے۔

*ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرے۔

*جو کچھ وہ اپنے گھر لے جا رہے ہوں اس پر نظر نہ گاڑے۔

*اگر ان کے عُیوب اس پر ظاہر ہوں تو انہیں چُھپائے۔

*اگرانہیں  کوئی حادثہ پیش آجائے تو فوراً ان کی مدد کرے۔

*پڑوسیوں کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت (Safety) کرنے میں غفلت کا مُظاہرہ نہ کرے۔

*ان کے خلاف کوئی بات نہ سُنے۔

*ان کی (عورتوں) کے سامنےنگاہیں نیچی رکھے۔

*ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔

*دِین ودنیا کےجس مُعاملے میں انہیں راہنمائی کی ضرورت ہو(تو)اس میں ان کی راہنمائی کرے۔([8])

ہر عقلمند شخص اچھی طرح یہ اندازہ لگاسکتا ہے کہ پڑوسیوں کے حُقوق کی بجاآوری کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں کہ اگر آج مسلمان صحیح معنیٰ میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں اور ان کے مطابق عمل پیرا ہوجائیں تو وہ دن دُور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی معنیٰ میں انقلاب برپا ہوجائے اور مُعاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے۔  مگر افسوس! کہ جیسے جیسے ہم زمانہ نَبوِی سے دُور ہوتے جارہے ہیں دیگر مُعاملات کے ساتھ ساتھ اب پڑوسیوں کے حُقوق کی ادائیگی کے مُعاملے میں بھی پستی کے گہرے گڑھے میں گِرتے جارہے ہیں۔ بعض نادان تو اس قدر بےحِس  ہوتے ہیں کہ گھر کے اندر موجود  بہن بھائیوں حتّٰی کہ والدین تک کو ہی نہیں پوچھتے تو اندازہ لگائیے کہ وہ گھر کے باہر والے پڑوسیوں کا کیا خیال رکھیں گے اور کیا ان کے حُقُوق ادا کریں گے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])بخاری، 4/105، حدیث:6019

([2])زرقانی علی الموطا،4/409

([3])معجم کبیر ،19/73 ، حدیث :143

([4])احیاء العلوم،2/266

([5])تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ:36، ص275

([6])شعب الایمان، 7/84،83،حدیث:9560

([7])شعب الایمان ، 7 /  83، حدیث : 9560

([8])احیاء العلوم،2/267


Share