Book Name:Bad shuguni haram hay
ہے جب کلام اَچّھا ہو، اگر بُرا ہو تو بدشُگُونی ہے۔ شریعت نے اِس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اَچّھا شُگُون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایَۂ تکمیل تک پہنچائے اور جب بُراکلام سُنے تو اُس کی طَرَف تَوَجُّہ نہ کرے اورنہ ہی اُس کے سَبَب اَپنے کام سے رُکے۔ (الجامع لاحکام القراٰن للقرطبی، پ۲۶، الاحقاف، تحت الاٰیۃ: ۴، ج۸، جزء۱۶، ص۱۳۲)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الاُمَّت حضر ت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان لکھتے ہیں: اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے ،بَدفالی، بَدشُگُونی لینا حرام ہے۔(تفسیر نعیمی، ۹/۱۱۹)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہو اکہ کسی بھی چیز کو دیکھ کر اس سے نیک فالی لینا جائزہے مثا ل کے طور پر ہم کسی کام کو جارہے ہوں،کسی نے پُکارا: ’’یارَشید (یعنی اے ہدایت یافتہ)‘‘، ’’یا سَعید(یعنی اے سعادت مند)‘‘،’’اے نیک بَخْت ‘‘ ہم نے خَیال کیا کہ اَچّھا نام سُنا ہےاِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ کامیابی ہوگی یا کسی بُزرگ کی زِیارَت ہوگئی اِسے اپنے حَق میں اَچّھا سمجھا کہ اَب اِنْ شَآءَ اللہعَزَّ وَجَلَّ مجھے اپنے مَقْصَد میں کامیابی ملے گی تو یہ اَچّھا شُگُون ہے اور اسلام نے اسے پَسَنْد کیا ہے۔ جبکہ کسی بھی چیز کو دیکھ کر اس سے بدشُگُونی اور بد فالی مُراد لینا اس سے اسلا م نے منع کیا ہے، مثلاً ایک شَخْص سَفَر کے اِرادے سے گھر سے نکلا لیکن راستے میں کالی بلّی راستہ کاٹ کر گُزر گئی ،اب اُس شَخْص نے یہ یَقین کرلیا کہ اِس کی نُحُوسَت کی وَجہ سے مجھے سَفر میں ضَرورکوئی نُقصان اُٹھانا پڑے گا اور سَفَر کرنے سے رُک گیا توایسا کرنابدشُگُونی میں مبُتلاہونا ہے اور اس سے شریعت نے منع کیا ہے۔کسی شخص ،جگہ ،چیزیا وَقت کو منحوس جاننے کا اسلام میں کوئی تصوُّر نہیں یہ مَحض وَہْمی خیالات ہوتے ہیں ۔
قرآنِ کریم میں کئی جگہ بدشُگُونی کی ممانعت آئی ہے۔ چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ پارہ 9،سورۂ اََعْراف کی آیت131میں فرعونیوں کے متعلّق ارشاد فرماتا ہے :