Book Name:Bad shuguni haram hay
مال کثرت سے تھا پھر ہم نے مکان بدلا چنانچہ ہمارے مال اور اہل وعیال کم ہوگئے ۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: چھوڑو! ایسا کہنا بُری بات ہے۔(ادب الدنیا والدین للماوردی، ص۲۷۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بد شُگُونی کی مذمّت پر بیان کردہ احادیثِ مُبارکہ سے معلوم ہواکہ بدشُگُونی لینے والا بلند درجات پانے سے محروم رہتاہے۔ ایسے شخص کے بارے میں نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا وہ ہمارے طریقے پر نہیں اسی طرح جب ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنے مکان کے بارے میں شکایت کرتے ہوئے کہا کہ جب سے ہم اس مکان میں گئے ہیں توہمارے اہل و عیال اورمال میں کمی آگئی ہے تو پیارے آقاصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فوراًاس خیال کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:’’ایسا کہنا بُری بات ہے‘‘بدقسمتی سے یہ بدشُگُونی ہمارے مُعاشرے میں اس قدر عام ہے کہ ہم بات بات پر اس بری عادت کے مُرتکب ہوتے نظر آتے ہیں ۔مثلاً
بدشُگُونی سے مُتعلِّق اعلیٰ حضرت کا فتویٰ
کبھی نئی نوکری کیلئے جاتے ہوۓ راستے میں ایمبو لینس یافائر بریگیڈ کی آوازسُن کر یہ ذِہن بنالیتے ہیں کہ آج ناکامی مُقدَّر میں ہے۔ کبھی پہلا گا ہک سودا لئے بغیرچلا جاۓ تو دکاندار اسے بد شُگُونی سمجھتےہیں۔اسی طرح حاملہ عورت کو میت کے قریب نہیں جانے دیتے تو کبھی جوانی میں بیوہ ہو جانے والی عورت کو منحوس کہہ کر دل آزاری ، تُہمت، بد گُمانی اور طرح طرح کےبُرے اَلقاب سے پُکاراجاتا ہے ۔
یا د رکھئے!اسلام نے اس طرح کسی کو منحوس سمجھنے کو حرام قراردیا ہے۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت،مجُدِّدِ دین وملّت ،مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنسے اسی نوعیّت کا سُوال کیا گیا کہ ایک شخص کے مُتعلِّق مشہور ہے اگر صُبْح کو اس کی منحوس صُورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضَرورکچھ نہ کچھ دِقّت اور پریشانی اُٹھانی پڑے گی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہو جانے کا وُثُوق (اِعتماد اور بھروسہ)ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضَروررُکاوٹ اور