Madinay Ki Barkatain

Book Name:Madinay Ki Barkatain

کی پیاری پیاری سنت زُلفیں سجائی ہوئی تھیں۔ وہاں موجود ایک پولیس اہلکار کو نجانے کیا سُوْجھا کہ اُس نے آپ کو اپنی طرف بُلاتے ہوئے کہا : تَعَال یعنی اِدھر آئیں۔ جب آپ اُس کے پاس تشریف لے گئے تو اُس نے پوچھا : یہ کیا کررہے ہو ؟ کوچۂ جاناں میں ذوق و شوق بھرے اِن جذبات کو بھلا الفاظ میں کیسے  بیان کیا جا سکتا ہے ؟ اللہ بہتر جانے اُسے کیا وہم ہو گیا ، مزید پوچھ گچھ کرتے ہوئے اُس نے آپ سے پاسپورٹ   (Passport) مانگا ، آپ نے فرمایا : وہ تومیری رہائش گاہ پر ہے۔ پھر وہ آپ کی زُلفوں کودیکھتے ہوئےکہنے لگا : یہ کیا ہے ؟ عاشقِ سنت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا : اَلسُّنَّة یعنی یہ سنت ہے۔شایددینی معلومات کم ہونے کے سبب اُس نے امیرِ اہلِ سنّت کی داڑھی شریف کو چھوتے  ہوئے کہا : هٰذِهِ السُّنَّة یعنی یہ داڑھی شریف سنت ہے ، زُلفیں سنت نہیں۔ یہ سنتے ہی امیرِاہلِ سنّت کا خیال اِس طرف گیا کہ ایک سال پہلے ہی  مسجدِ حرام شریف میں کچھ ایسے لوگ آئے تھے جنہوں نے  بڑے بڑے بال رکھے ہوئے تھے اُنہوں نے وہاں بڑی بے ادبیاں کی تھیں اس دردناک (Painful) واقعے میں کئی حاجی شہید بھی ہوئے۔ ہو نہ ہو کہیں اِس پولیس والے کے ذہن میں یہ تونہیں آرہا کہ میں اُن میں سے ہوں۔پھر اُس نے اپنے ایک دوسرے ساتھی کو جو قریب  بیٹھا اُونگھ رہا تھا ، پاؤں سے ٹھوکر مارکر اُٹھایا۔ اُس نے اُٹھتے ہی بندوق سنبھالی۔نماز ِ فجر کا وقت قریب  اوروضو وغیرہ کی حاجت ،  ایسے میں عاشقِ مدینہ کا دِل بڑا بے قرا رہواچاہتاتھا کہ نجانے یہ کیا کرنا چاہ رہے ہیں ، پولیس والے نے قریب  ہی ایک چھوٹے سےکوٹھڑی نما کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے کا کہا۔آپ دل ہی دل میں یہ سوچ کر پریشا ن ہوگئے کہ اللہ نہ کرے اگرمجھے یہاں چھوڑ کر یہ لوگ چلے گئے تو