Book Name:Faizan e Ramzan ul Mubarak

آگ کی لپیٹ میں ہے اور رَو رَو کر آپ رَضِیَ اللہُ عنہ سے اِس طرح فریاد کررہا ہے:

یَاعَلِیُّ! اَنَا غَرِیْقٌ فِی النَّارِ وَحَرِیْقٌ فِی النَّارِ

 یعنی اے مولا علی شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ! میں آگ میں ڈوبا ہوا ہوں اور آگ میں جل رہا ہوں۔ قَبْرکے دَہشت ناک منظر اور مُردے کی درد نا ک پُکارنے حیدرِ کرّار رَضِیَ اللہُ عنہ کو بے قرار کر دیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ عنہ نے اپنے رَحمت والے پروَردگار کے دربار میں ہاتھ اُٹھا دئیے اور نہایت ہی عاجِزی کے ساتھ اُس مَیِّت کی بخشش کےلئے درخواست پیش کی۔ غیب سے آواز آئی: اے علی رَضِیَ اللہُ عنہ!آپ (رَضِیَ اللہُ عنہ) اِس کی سِفارش نہ ہی فرمائیں کیوں کہ روزے رکھنے کے باوُجُود یہ شخص رَمَضانُ الْمُبارَک کی بے حُرمتی کرتا، رَمَضانُ الْمُبارَک میں بھی گُناہوں سے باز نہ آتا تھا۔دن کو روزے تَو رکھ لیتا مگر راتوں کو گُناہوں میں مُبْتَلا رہتا تھا۔مَولا علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ یہ سُن کر اور بھی رنجیدہ ہو گئے اور سَجدے میں گِر کر رَو رَو کر عرض کرنے لگے: یااللہ پاک! میری لاج تیرے ہاتھ میں ہے، اِس بندے نے بڑی اُمّید کے ساتھ مجھے پُکارا ہے ، میرے مالِک کریم! تُو مجھے اِس کے آگے رُسوا نہ فرما، اِ س کی بے بَسی پر رَحم فرما دے اور اِس کو بَخش دے ۔حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ رَو رَو کر مُناجات کر رہے تھے۔ اللہ پاک کی رَحمت کا دریا جوش میں آ گیا اور آواز آئی: اے علی رَضِیَ اللہُ عنہ! ہم نے تمہاری شِکَسْتہ دِلی کے سَبَب اِسے بخش دیا۔چُنانچِہ اُس مُردے پر سے عذاب اُٹھا لیا گیا۔([1])  

کیوں نہ مُشکِل کُشا کہوں تم کو!

تم نے بگڑی مِری بنائی ہے


 

 



[1]... انیسُ الْواعِظین، صفحہ:25-26۔