Book Name:Burai Ke Peshwa Mat Bano

یعنی قرآن کے، دِینِ اسلام کے، محبوبِ ذیشان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے پہلے کافِر نہ بنو...!!

یہاں غور کرنے کی بات ہے، یہ جو ایک سوچ دی جا رہی ہے، عُلَمائے بنی اِسرائیل کو اِیمان کا حکم دینے کے لئے جس پہلو کی طرف ان کی تَوَجُّہ دِلائی جا رہی ہے، یعنی ان کو کہا گیا کہ اے عُلَمائے بنی اسرائیل! آج تم اگر کفر کرو گے، اپنی اس کافِرانہ رَوِش پر اڑے رہو گے تو یہ ایک بُرائی تو ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس میں بُرائی کا ایک اور پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ آج تم اگر کُفر کرو گے تو تمہارے اس کُفر کی وجہ سے تمہاری نسلیں بھی بگڑ سکتی ہیں،و ہ بھی تمہارے ہی نقشِ قدم پر چلیں گی، پِھر ان کے کُفر کا بھی گُنَاہ تمہارے سَر آ جائے گا، لہٰذا آج اپنی نسلوں کی بھی فِکْر کرو! آج تم ایمان لے آؤ گے، آج تم سَنْور جاؤ گے تو اس کے صدقے میں تمہاری آیندہ نسلیں بھی سَنْور جائیں گی...!!

پیارے اسلامی بھائیو! یہاں سے ہمیں ایک روشنی ملتی ہے، ایک سبق سیکھنے کو ملتا ہے، وہ یہ کہ آج ہم نے جو کچھ کرنا ہے، ہم جو فیصلے لیتے ہیں، ہم جو عادتیں اَپناتے ہیں، ہم جو کچھ اس دُنیا میں کر رہے ہیں، یہ سب کچھ کرنے میں ہمیں اپنی نسلوں کا لِحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔

ابتدا ایک سے ہوتی ہے

یاد رکھئے! بُرائی ہو یا اچھائی ہو، اس کی ابتدا ہمیشہ ایک فَرْد سے ہوتی ہے، ایک آدمی بُرائی کا رَستہ اِختیار کرتا ہے، اس کے نتیجے میں پُوری کی پُوری نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں، اِسی طرح ایک آدمی اچھائی کا رستہ اِختیار کرتا ہے، اس کے نتیجے میں نَسلوں کی نسلیں سَنْور جاتی ہیں۔ چند مثالیں عرض کروں: *قدیم زمانوں میں یَمَن کے لوگ سُورج کو اپنا خُدا مانتے