Book Name:Amal Ne Kaam Ana Hai
آج لے اُن کی پناہ، آج مدد مانگ اُن سے
کل نہ مَانیں گے قیامت میں اگر مَان گیا([1])
بنی اسرائیل کا عقیدۂ شفاعت
اب سُوال یہ ہے کہ جب آیات اور اَحَادیث سے یہ ثابِت ہے کہ روزِ قیامت شَفَاعت بھی کی جائے گی اور یہ شَفَاعت قُبُول بھی ہو گی، پِھر یہ کیوں فرمایا گیا:
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ (پارہ:1، البقرۃ:48)
تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان: جس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی اور نہ کوئی سفارش مانی جائے گی۔
اس سُوال کا جواب یہ ہے کہ اَصْل میں اس مقام پر بنی اسرائیل کے نظریۂ شفاعت کی کاٹ کی جا رہی ہے، بنی اسرائیل کا نظریہ کیا تھا؟ وہ شفاعت کو کیاسمجھتے تھے؟ الله پاک فرماتا ہے:
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةًؕ (پارہ:1، البقرۃ:80)
تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان: اور بولے: ہمیں تو آگ ہر گز نہ چھوئے گی مگر گنتی کے دن۔
یعنی بنی اسرائیل کا یہ ماننا تھا کہ ہم کچھ بھی کریں *ہم کلمہ پڑھیں یا نہ پڑھیں *ہم اللہ پاک کے اَحکام پر عمل کریں یا نہ کریں *ہم نیکیاں کریں یا نہ کریں *چاہے ہم انبیائے کرام علیہم السَّلَام کو شہید کر ڈالیں *چاہے ہم تورات شریف کو بدل کر رکھ دیں *رَبّ کے کلام میں اپنی طرف سے کلام شامِل کر دیں *دُنیا میں عیش کریں *موج