Book Name:Amal Ne Kaam Ana Hai
مستی کریں، چاہے کچھ بھی کرتے رہیں ہمارے بزرگ، ہمارے بڑے جن کی ہم اَوْلاد ہیں، وہ شَفَاعت کر کے ہمیں جہنّم سے آزاد کروا لیں گے، لہٰذا ہم نے جہنّم میں گنتی کے چند دِن ہی رہنا ہے۔([1]) گویا یہ سمجھ رہے تھے کہ جنّت پر ہماری ٹھیکے داری ہے، لہٰذا ان کے اس نظریے کی کاٹ کی گئی اور فرما دیا گیا :
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ (پارہ:1، البقرۃ:48)
تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان: جس دن کوئی جان کسی دوسرے کی طرف سے بدلہ نہ دے گی اور نہ کوئی سفارش مانی جائے گی۔
یعنی ایسا نہیں ہے کہ *تم چاہے کچھ بھی کرتے پھرو! *کلمہ بھی نہ پڑھو! *اِیمان بھی قُبُول نہ کرو! *نبیوں کی گستاخی کر کے مرتَد بھی ہو جاؤ! *رَبّ کے کلام تورات شریف کی گستاخیاں بھی کر لو، پِھر بھی تمہاری شَفَاعت ہو جائے گی اور تم جنّت میں پہنچ جاؤ گے، نہیں، نہیں...!! ایسا ہر گز نہیں ہو گا بلکہ تمہیں آج، اس دُنیوی زندگی میں خُود کو جنّت کا حقدار بنانا پڑے گا۔
معلوم ہوا ؛ ہم تکیہ کسی پر نہیں کر سکتے، نہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ شَفَاعت کی اُمِّید پر عَمَل چھوڑ دیں اور نہ ہی یہ دُرُست ہے کہ عَمَل کے بھروسے پر شفاعت کا اِنْکار کر دیں، شفاعت پر یقین بھی رکھنا ہے اور عَمَل بھی کرتے چلے جانا ہےدیکھئے! صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضْوَان جو سب اُمّتوں میں سب سے بلند رُتبہ ہیں، یہ ہمارے لئے معیار ہیں، یہ بلند رُتبہ حضرات