Sab Se Baray Parhaiz Gar

Book Name:Sab Se Baray Parhaiz Gar

میں یعنی اِسْلام قُبُول کرنے سے پہلے کہانت (یعنی نجومیوں والے کام) کرتا تھا، ایک مرتبہ اس نے کسی کی فال وغیرہ کھولی ہو گی، اس کام کے پیسے نہیں مِلے، یعنی اس شخص نے اُدھار کر لیا۔ مُعَاملہ گزر گیا، پِھر یہ غُلام حضرت اَبُوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ عنہ کی غُلامی میں آ گیا، ایک دِن اس نے آپ کی خِدْمت میں کوئی کھانے کی چیز  پیش کی۔ حضرت صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ نے کھا لی۔

جب کھا چکے تو غُلام نے کہا: عَالِی جَاہ! ابھی جو آپ نے کھایا،  جانتے ہیں کہ کہاں سے آیا تھا؟ آپ نے حیرانی سے پوچھا: کہاں سے آیا تھا؟ عرض کیا: میں نے مسلمان ہونے سے پہلے ایک شخص کے لئے کہانت کی (یعنی فال وغیرہ کھولی) تھی ، اُس نے آج اس کے مُعَاوَضے میں یہ کھانے کی چیز دی۔

بس یہ سُننا تھا کہ حضرت صِدِّیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ پر تو گویا پریشانی کا پہاڑ ٹُوٹ گیا، آپ نے فورًا اپنے حلق میں اُنگلی ڈالی، جیسے تیسے ہو سکا قَے کی اور وہ کھانا نکال دیا۔([1])  

بعض روایات میں ہے: آپ نے فرمایا: اگر اسےنکالنے کے لئے مجھے اپنی جان بھی گنوانی پڑتی تو کر گزرتا کیونکہ میں نے مَحْبُوبِ ذیشان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم سے سُنا ہے: جَسَدٌ غُذِيَ ‌بِحَرَامٍ ‌فَالنَّارُ اَوْلٰی بِهٖ  جو بدن حرام غذا سے پَلا ہو، جہنّم اس کے زیادہ لائق ہے۔([2])

اللہ! اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! تقویٰ کا عالَم دیکھئے! آپ نے اَنْجانے میں کھا لیا تھا، آپ کو مَعْلُوم ہوتا کہ یہ کھانا کہاں سے آیا ہے، آپ ہر گز نہ کھاتے، اَنجانے میں کھا ہی لیا تو اب یہ نہیں کہ صِرْف تَوْبَہ کر لی ہو، اللہ پاک سے مُعَافِی چاہی ہو...!! نہیں! بلکہ آپ نے وہ کھانا اپنے جسم سے نکال دیا تاکہ یہ کھانا آپ کے جسم کا حصّہ نہ بن سکے۔


 

 



[1]...بخاری، کتاب مناقب الانصار، باب ایام الجاہلیۃ، صفحہ:966، حدیث:3842۔

[2]...مجالسۃ وجواہر العلم، جز:10، جلد:2، صفحہ:82،  رقم:1391۔