Book Name:Khwaja Huzoor Ka Faizan
اِنَّ اللہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبُّوْہُ یعنی اے آسمان والو! بےشک اللہ پاک فُلاں سے محبّت فرماتا ہے، تم بھی اِس سے محبّت کرو!
پس آسمانوں والے فرشتے اُس سے محبّت کرنے لگتے ہیں۔ اب گویا سارے آسمانوں میں وِلیُّ اللہ کی محبّت عام ہو جاتی ہے، پِھر اِس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ حدیثِ پاک میں ہے: ثُمَّ یُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلُ فِی الْاَرْضِ پھر زمین میں اُس بندے کی مَقْبولیت رکھ دی جاتی ہے (یعنی لوگوں کے دِل اُس کی طرف مائِل کر دئیے جاتے ہیں)۔ ([1])
سُبْحٰنَ اللہ! ہم دیکھتے ہیں نا؛ مزاراتِ اَوْلیا پر دِن رات بِھیڑ لگی ہوتی ہے، لوگ آ رہے ہیں *کوئی تِلاوت کر رہا ہے *کوئی فاتحہ شریف پڑھ رہا ہے *کوئی درودِ پاک پڑھ رہا ہے*کوئی دُعائیں کر رہا ہے *یہاں برکتیں لے رہے ہیں، الحمد للہ! ہزاروں ایسے لوگ ہیں، جنہیں اور کوئی کام نہیں ہوتا، خاص طَور پر وقت نکال کر، پیسہ خرچ کر کے، گھر بار چھوڑ کر اسپیشل مزارات پر حاضِری دیتے ہیں۔ اِس سے روکنے والے بھی بہت لوگ موجود ہیں، سوشل میڈیا وغیرہ پر پروپیگنڈا ہوتا رہتا ہے، مزاروں پر نہ جاؤ! یہ شِرک ہے، بِدْعَتْ ہے وغیرہ وغیرہ بولنے والے جو دِل میں آتا ہے، بولتے ہیں، اِس کے باوُجُود مزارات کی رونقیں کم نہیں ہوتیں، صدیاں گزر گئیں، خواجہ حُضُور رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزار شریف پر آج بھی رونقیں لگی ہوئی ہیں، کتنے ایسے لوگ ہیں جو مزارِ پاک پر حاضِری کے لئے تڑپتے ہیں، یہ کیوں ہے؟ اِس لئے کہ یہ محبّتِ اَوْلیا خُدائی عطیّہ ہے، یہ نصیب اُس کو ہوتی ہے، جسے رَبّ عطا فرمانا چاہتا ہے اور جسے نصیب ہو جاتی ہے، دُنیا کی کوئی طاقت اِس