Book Name:Bekhaufi Ka Wabal
صَلاحیّت ہی ختم ہو گئی *اُن کے کردار بگڑ گئے *رشوت اور سُود خوری وغیرہ گُنَاہوں میں مُلوِّث رہے، اِس سب کی وجہ کیا تھی...؟ اللہ پاک نے فرمایا:
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةًؕ (پارہ:1، البقرۃ:80)
تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان: اور بولے : ہمیں تو آگ ہرگز نہ چُھوئے گی مگر گنتی کے چند دن۔
یعنی اُن کے بگڑنے کی بنیادی وجہ بےخوفی تھی *یہ گنہگار ہو کر بھی خُود کو نیکوکار سمجھتے تھے *بیکار ہو کر بھی اپنے آپ کو جنّت کا حقدار سمجھتے تھے * اللہ پاک کے ہاں مقبول نہیں تھے، پِھر بھی خُود کو اللہ کا پیارا خیال کرتے تھے *ان کا یہ ذہن بنا ہوا تھا کہ ہم نے تو جہنّم میں جانا ہی نہیں ہے، گئے بھی تو گنتی کے کچھ دِن ہی کے لئے جائیں گے۔ اُن کی یہی بےخوفی تھی، جس کے سبب یہ گُنَاہوں پر دلیر ہوئے اور راہِ حق سے مَحْروم رہ گئے۔
اِس سے پتا چلا؛ اَلْاَمْنُ مِنْ مَکْرِ اللہ (یعنی اللہ پاک کی خُفْیہ تدبیر سے بےخوف ہو جانا) ساری بُرائیوں کی جڑ ہے *جب بندہ بےخوف ہوتا ہے تو گُنَاہوں پر دلیر(Fearless) ہوتا ہے *جب بندہ بےخوف ہوتا ہے تو نیکیوں سے دُور ہٹتا ہے *جب بندہ بےخوف ہوتا ہے تو اُس کا کردار بگڑتا ہے *جو اللہ پاک سے نہیں ڈرتا، وہ دوسروں کو تکلیفیں بھی پہنچا لیتا ہے *جو اللہ پاک سے نہیں ڈرتا، وہ ظلم و زیادتی پر بھی دلیرہوتا ہے۔ احیاءُ العلوم میں ہے: بدبختی سے ڈرنا نیک بختی کی علامت ہے کیونکہ خوف اللہ پاک اور بندے کے درمیان ایک لگام ہے، جب یہ لگام ٹوٹ جائے تو بندہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوجاتا ہے۔([1])
تو ڈَرْ اپنا عِنایت کر، رہیں اس ڈر سے آنکھیں تَرْ
مِٹا خَوفِ جہاں دِل سے، مِٹا دُنیا کا غم مولیٰ!