رمضان المبارک 1441 اسلامی ماہ کا نواں مہینا

رَمَضانُ المُبارَک اسلامی سال کا نواں مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام ، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وِصال یا عُرس ہے ، ان میں سے43کا مختصر ذِکْر “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ رَمَضانُ المبارَک 1438ھ تا 1440ھ کے شماروں میں کیا جاچکا ہے ، مزید14کا تعارف ملاحظہ فرمائیے : صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان: (1) بَدْرِی صحابی حضرت سیّدُنا ابوسعید رافع بن مُعَلّٰی خَزْرَجِی رضی اللہ عنہ  انصاری قبیلے بَنُوزُرَیق کے چشم و چراغ تھے ، غَزْوَۂ بَدْر میں شرکت کی اور اسی غزوہ میں 17 رمضان 2ھ کو شہید ہوئے۔ ([i])  (2)صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا ابو عَمرو صفوان بن بَیْضاء قَرشی فِہْرِی رضی اللہ عنہ نے مکّہ شریف میں اسلام لاکر اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن میں شامل ہونے کی سعادت پائی ، مدینۂ منوّرہ ہجرت فرمائی۔ یہاں ان کی حضرت رافع خزرجی انصاری رضی اللہ عنہ سے مُوَاخات کرائی گئی (یعنی بھائی بنایا گیا)۔ سَرْیَہ عبداللہ بن جحش اور غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ رمضان  38ھ میں وِصال فرمایا۔ بعض کے نزدیک غزوۂ بدر یا طاعونِ عُمْوَاس میں شہید ہوئے۔ ([ii])   اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام: (3) حضرت سیّدہ نفیسہ صُغریٰ رحمۃ اللہ علیہا حضرت سیّدُنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت حسن انور بن زید اَبْلَج  رحمۃ اللہ علیہما   کی بیٹی ہیں ، آپ کی ولادت مکۃُ المکّرمہ میں 145ھ کوہوئی اور وصال قاہرہ مصر میں رمضان208ھ کو فرمایا ، مزار محلہ دَرْبُ السِّباع (قاہرہ قدیم) میں دعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے۔ آپ حافظہ ، محدثہ ، عالمہ ، عابدہ ، زاہدہ اور ولیہ تھیں ، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے علمی استفادہ کیا اور احادیث بھی روایت کیں۔ ([iii])  (4)برادرِ بابا  فرید گنجِ شکر ، حضرت خواجہ نجیبُ الدّین متوکل چشتی رحمۃ اللہ علیہ کھتوال (کوٹھی وال)  ملتان میں پیدا ہوئے اور 7رمضان 671ھ میں دہلی میں وفات پائی ، مزار مبارک اچنی(Adchini) نیو دہلی میں مزار والدۂ خواجہ نظام الدین اولیا کے قریب ایک احاطے میں ہے ، آپ حضرت بابا فرید گنجِ شکر کے خلیفہ ، بلند پایہ درویش ، شریعت و طریقت کے جامع اور اعلیٰ درجے کے توکّل کرنے والے تھے۔ ([iv])  (5)نبیرۂ خواجہ احرار حضرتِ خواجہ عبدُالشہید نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت  893ھ کے قریب ہوئی اور وِصال 8 رمضان 986ھ کو سمرقند (ازبکستان) میں ہوا اور یہیں دفن کئے گئے۔ آپ عالمِ دین ، شیخِ طریقت ، صاحبِ مطالعہ اور کثیرُ الفیض تھے ، ہند کا بھی سفرکیا ، یہاں پندرہ سال رہے ، دس بارہ ہزار لوگ حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے بادشاہِ وقت بھی آپ کا معتقد تھا۔ ([v])  (6) قطبِ زمانہ میراں شاہ بھیکھ حضرت سیّد محمد سعید ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 1046ھ کو کہرام نزد سرہند (پٹیالہ ہند) میں ہوئی اور وِصال 5 رمضان1131ھ کو ہوا ، مزار جائے پیدائش میں ہے ، آپ سلسلۂ چشتیہ صابریہ کے عظیم شیخِ طریقت ، صاحبِ مجاہدہ ، تین زبانوں (عربی ، فارسی ، ہندی) کے ماہر ، صاحبِ دیوان ہندی ، صُوفی شاعر اور کثیرُالفیض بزرگ ہیں۔ ([vi]) (7) چنبی والی سرکار حضرت صاحبزادہ اکبر علی قادری نوشاہی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش رَنْمَل شریف (ضلع منڈی بہاؤالدین ، پنجاب) میں 1235ھ میں ہوئی اور وِصال 9رمضان1305ھ سنگھوئی شریف (تحصیل و ضلع جہلم) میں ہوا۔ آپ عالمِ دین ، شیخِ طریقت ، صاحبِ کرامات ، مستجابُ الدّعوات اور دربارِ عالیہ قادریہ نوشاہیہ سنگھوئی شریف کے پہلے سجادہ نشین تھے۔ ([vii])  علمائے اسلام رحمہمُ اللہُ السَّلام: (8)تبع تابعی حضرت حماد بن زید بصری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 98ھ کو بصرہ (عراق) میں ہوئی اور یہیں 19رمضان 179ھ میں وفات پائی ، آپ چار ہزار احادیث کے حافظ ، ثِقہ راوی ، استاذُالمحدثین ، سیّدُالمسلمین اور ذہین ترین انسانوں میں سے تھے۔ آپ نے سیّدُالتّابعین حضرت ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ سے بیس سال علمِ حدیث حاصل کیا۔ ([viii])  (9)مفتیِ اسلام حضرت علّامہ حسن بن عمار شَرُنْبُلالی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 994ھ کو شبرا بلولہ (منوفیہ) مصر میں ہوئی اور قاہرہ میں 11 رمضان 1069ھ کو وفات پائی۔ تربۃ المجاورین میں دفن کئے گئے۔ آپ حافظِ قراٰن ، فاضل و استاذ جامعۃُ الازہر ، فقیہِ حنفیہ ، استاذُالعلماء اورکثیر کتب کے مصنف تھے۔ آپ کی کتاب نُورُ الْاِیْضَاح درسِ نظامی (عالم کورس) کے نصاب میں شامل ہے۔ ([ix])  (10)داعیِ اسلام حضرت الحاج عمر بن سعید تال فوتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1223ھ کو موضع حلوار (نزدبودور ، فوتاطورد ، سینی گال ، برِّاعظم افریقہ)  میں ہوئی اور 4 رمضان 1280ھ کو باديكرا (موبتی ، مالی) میں شہید ہوئے ، آپ حافظِ قراٰن ، مالکی عالمِ دین ، صُوفی شاعر ، مصنفِ کُتب ، تجانی شیخِ طریقت ، مجاہدِ اسلام ، مغربی برِّاعظم افریقہ کی مؤثر شخصیت اور بانی ِمملکت تکرور (دولة التجانيين) تھے۔ ([x]) (11)حضرت شیخ محمد زاہد بن عمر مدنی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1275ھ کو مدینۂ منوّرہ میں ہوئی اور یہیں 27 رمضان 1348ھ کو وصال فرمایا۔ آپ حافظِ قراٰن ، عالمِ دین ، زاہد و عابد ، مسجدِ نبوی کے امام و خطیب ، استاذُ العلماء اور رُکنِ مجلسِ تعزیراتِ شرعیہ تھے۔ آپ نے کئی کُتب پر تعلیقات اور اعلیٰ حضرت کی اہم کتاب اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیّۃ پر تقریظ لکھی۔ ([xi]) (12)مبلغِ اسلام ، سہیلِ ہند حضرت مولانا غلام قطبُ الدّین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت سہسوان (نزد بدایوں یوپی ہند) میں ہوئی اور وصال 18 رَمضان 1350ھ میں یہیں ہوا۔ آپ عالمِ دین ، مبلغِ اسلام اور اُردو کے ساتھ سَنْسْکُرْت میں بھی ماہر تھے۔ آپ کے ہاتھ پر کثیر غیرمسلم مسلمان ہوئے۔ آپ شبیہِ غوثُ الاعظم حضرت شاہ سیّد علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ ([xii])  (13)فخرُ الاسلام حضرت مولانا حبیبُ الرّحمٰن کانپوری قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1292ھ کو کانپورکےایک علمی گھرانے میں ہوئی اور یہیں  20رمضان 1366ھ کو وصال فرمایا ، تدفین علّامہ سلامتُ اللہ کشفی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے متصل ہوئی۔ آپ جید عالمِ دین ، مجازِ طریقت اور اخلاقِ حَسَنَہ سے متصف تھے۔ ([xiii])  (14)خلیفۂ حجۃُ الاسلام ، شیخُ الحدیث حضرت علّامہ عبدالمصطفٰے اعظمی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ 1333ھ میں ہند کے قصبہ گھوسی ضلع مؤ میں پیدا ہوئے اور وِصال 5 رمضان 1406ھ کو فرمایا۔ آپ تلمیذِ صدرُ الشریعہ و محدثِ اعظم پاکستان ، عالمِ باعمل ، بہترین واعظ و مدرس ، استاذالعلماء ، مجازِ طریقت اور کثیر کُتب کے مصنف ہیں۔ سیرتِ مصطفیٰ اور عجائبُ القرآن آپ کی مشہور کُتب ہیں۔ ([xiv])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*رکنِ شوریٰ و نگران مجلس المدینۃالعلمیہ ، کراچی

 

 



([i] )   الاستیعاب ، 2 / 64

([ii] )   الاستیعاب ، 2 / 278 ، اسدالغابہ ، 3 / 33 ، تاریخ ابن عساکر ، 28 / 177تا 181

([iii] )   سیر اعلام النبلا ، 8 / 426 ، نورالابصار ، ص207تا 209

([iv] )   اخبارالاخیار ، ص61 ، دلی کے بائیس خواجہ ، ص90تا 98 ، خزینۃ الاصفیاء ، 2 / 142

([v] )   خواجہ عبیداللہ احرار ، ص125 ، 126

([vi] )   تذکرہ میراں شاہ بھیکھ ، ص6 ، 28 ، 31 ، تذکرۃ الانساب ، ص161

([vii] )   تذکرہ اولیائے جہلم ، ص132 ، 134 ، 145

([viii] )   سیراعلام النبلاء ، 7 / 345تا 351

([ix] )   الفوائد البھیۃ مع طرب الاماثل ، ص268

([x] )   فتح الملك العلام فی تراجم بعض علماء الطریقۃ التجانیۃ الاعلام ، ص137تا142

([xi] )   الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ ، کلمۃ المحقق ، تاریخ الدولۃ المکیۃ ، ص143

([xii] )   حیات مخدوم الاولیاء ، ص331 ، 332

([xiii] )   تذکرہ علمائے اہل سنت ، ص79

([xiv] )   جنتی زیور ، ص28 ، 30 ، سیرتِ صدرُالشریعہ ، ص235 ، 233


Share