بغیر اطلاع نوکری چھوڑنے پر ایک ماہ کی تنخواہ کاٹنا کیسا؟

بغیر اطلاع نوکری چھوڑنے پرایک ماہ کی تنخواہ کاٹنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی ادارے یا کمپنی میں یہ شرط ہوکہ نوکری چھوڑنے کی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ ایک ماہ پہلے بتانا ہوگا ورنہ آپ کی ایک ماہ کی سیلری کاٹ لی جائے گی تو  اس کا کیا حکم ہے اورایسی شرط پر اجارہ کرناکیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : کسی ادارے یا کمپنی والوں کانوکری چھوڑنے کے حوالے سے اجیروں پر یہ شرط لگانا کہ “ نوکری چھوڑنے کی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ ایک ماہ پہلے بتانا ہوگا ورنہ آپ کی ایک ماہ کی سیلری کاٹ لی جائے گی “ ناجائز و حرام کام ہے۔ بغیر بتائے چھوڑنے کی صورت میں ایک ماہ جو کام کیا اس کی اجرت کاٹ لینا بھی جائزنہیں ہے۔ نیز معاہدے میں ایسی شرط لگانا ہی درست نہیں۔

حدیث شریف میں ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : “ ما بال رجال یشترطون شروطا لیست فی کتاب اللہ ما کان من شرط لیس فی کتاب اللہ فھو باطل وان کان مائۃ شرط قضاء اللہ احق وشرط اللہ اوثقیعنی لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتابُ اللہ میں نہیں ہیں اور جو شرط کتابُ اللہ کی رُو سے جائز نہ ہووہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہوں ، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ زیادہ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کی  شرط بہت مضبوط ہے۔ (بخاری ، 2 / 36 ، حدیث : 2168)

در مختار میں ہے : “ تفسد الاجارۃ بالشروط المخالفۃ

 لمقتضی العقدیعنی ایسی شرائط اجارے کو فاسد کردیتی ہیں جو عقد کے تقاضے کے خلاف ہوں۔ (در مختار مع رد المحتار ، 9 / 77)

اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن  “ فتاویٰ رضویہ “ میں اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے  لکھتے ہیں : “ تسلیم نفس کامل کر کے اور بات میں با وصف قبول و اقرار خلاف ورزی غایت یہ کہ جرم ہو ، جرم کی تعزیرِمالی جائز نہیں ہے کہ منسوخ ہے اور منسوخ پر عمل حرام ، مع ھذا حقوق العباد میں مطلقاً اور حقوق اللہ میں جرم کر چکنے کے بعد تعزیر کا اختیار صورِ معدودہ کے سوا قاضیٔ شرع کو ہے ، نہ عام لوگوں کو ، اور امر ناجائز رائج ہوجانے سے جائز نہیں ہوسکتا ، یونہی ملازمت بلااطلاع چھوڑ کر چلا جانااس وقت سے تنخواہ قطع کرے گا نہ کہ تنخواہ واجب شدہ کو ساقط ، اور اس پر کسی تاوان کی شرط کرلینی ، مثلاً نوکری چھوڑ نا چاہے تو اتنے دنوں پہلے سے اطلاع دے ، ورنہ اتنی تنخواہ ضبط ہوگی ، یہ سب باطل و خلاف شرعِ مطہر ہے۔ پھر اگر اس قسم کی شرطیں عقدِ اجارہ میں لگائی گئیں جیساکہ بیان سوال سے ظاہر  ہے کہ وقتِ ملازمت ان قواعد پر دستخط لے لئے جاتے ہیں یا ایسے شرائط وہاں مشہور و معلوم ہو کر المعروف کالمشروط ہوں ، جب تو وہ نوکری ہی ناجائز و گناہ ہے کہ شرط فاسد سے اجارہ فاسد ہوا ، اور عقدِ فاسد حرام ہے ، اور دونوں عاقد مبتلائے گناہ ، اور ان میں ہر ایک پر اس کا فسخ واجب ، اور اس صورت میں ملازمین تنخواہ مقرر کے مستحق نہ ہوں گےبلکہ اجر مثل کے جو مشاہرہ معینہ سے زائد نہ ہو ، اجر مثل اگر مسمی سے کم ہے تو اس قدر خود ہی کم پائیں گے ، اگرچہ خلاف ورزی اصلاً نہ کریں۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 19 / 506 ، 507)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مِل والوں کا گندم کی بوری میں مٹی کنکر کے نام پر پیسے کاٹنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ باہر سے جب گندم آتی ہے تو اس میں کنکربھی ہوتے ہیں  مٹی بھی ہوتی ہےتو  مل والے ایک اندازے سے  گندم والے کے  دو کلووزن کے پیسے کاٹ لیتے ہیں جسے کاٹ کا نام دیا جاتا ہےمثلاً 100 کلو کی بوری تیس روپے فی کلو کے حساب تین ہزار روپے کی بنی تو اس میں کاٹ کرکے اسے اٹھانوے کلو شمار کرتے اور  دو کلو مٹی کنکر کے نام سے کاٹ لیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : اگر یہ لوگوں کے درمیان رائج ہے اور اس پر لوگوں کا عرف ہےکہ 100کلوکا جب بھی سودا ہوگا تو پیسے اٹھانوے کلو کے ہی دئیے جائیں گے تو یہ جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر فریقِ ثانی یعنی مال بیچنے والا اس بات پر راضی نہیں ہے تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پائلیٹ لکڑی  صوفے میں لگا نا اور صوفہ نیا کہہ کر بیچنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ باہر سے پائلیٹ  کی صورت میں لکڑی آتی ہے جو کہ کنٹینر میں نیچے رکھی جاتی ہے اور اس کے اوپر سامان رکھا جاتا ہے پھر یہ پائلیٹ مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں اور اس سے جڑی لکڑیاں کھول کر صوفہ بنانے والوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ صوفے والے اس لکڑی کو اندرونی فٹنگ میں استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ  استعمال ہوچکی ہوتی ہےلیکن ہم کہتے ہیں

 کہ یہ نیا صوفہ ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : صوفے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ ہوتے ہیں جن کے اندر کا اسٹرکچر(Structure) مختلف پھٹیوں اور لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔ دوسرے وہ صوفے ہوتے ہیں جن کے اندرونی اسٹرکچر  میں بھی صرف وہی لکڑی استعمال ہوتی ہے جو پہلے سے طے کی گئی ہو اور دونوں قسم کے ریٹ میں بھی دسیوں ہزار کا فرق ہوتا ہے۔ پہلے قسم کے جو صوفے ہیں ان میں پائلیٹ کی لکڑی استعمال کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ بالکل نئی جیسی ہوتی ہے اور عرف میں کنٹینر میں استعمال ہوجانے کی وجہ سے اس پر اعتراض بھی نہیں کیا جاتا۔ البتہ ہر شخص یہ نہیں جانتا کہ صوفے کا اسٹرکچر کس انداز پر بنایا گیا ہےلہٰذا دکاندار کو چاہیے کہ گاہک پر واضح کرے کہ اندر کا  اسٹرکچر مختلف قسم کی لکڑیوں سے بنایا جاتا ہے اور کسی خاص لکڑی کا التزا م نہیں کیا جاتا مثلاً یہ نہیں کہ اندر شیشم کی لکڑی ہوگی یا فلاں درخت کی لکڑی ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*دارالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان ، کھارادر ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code