حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کےحیرت انگیز  فیصلے

ایک قاضی اور جج (Justice)کی زندگی میں  بسااوقات ایسےپیچیدہ مقدمے بھی آجاتے ہیں جن کا حل انتہائی مشکل اور دشوار نظر آتا ہے۔ دَر اَصل اس طرح کے  مقدمات  اس بات کا فیصلہ بھی کردیتے ہیں کہ قاضی کن صلاحیتوں کا حامل ہے اور عقل و دانش کے کس بلند رُتبے پر فائز ہے ، آئیے! شیرِ خدا حضرت سیدنا مولا علی  رضی اللہ عنہ  کے کچھ دل چسپ اور مشکل فیصلوں کو  ملاحظہ کیجئے اور دیکھئے  کہ آپ کے  فیصلوں نے کس طرح پریشان حالوں کی پریشانی حل  کی ، دُکھیاروں  کا دکھ دور کیا اور آزمائش میں گِھر جانے والوں  کو آزمائش سے نکالا۔

غلام کون ہے ؟یمن کے  ایک آدمی نے اپنے لڑکے کو سفر پر بھیجا تو  اس کے ساتھ ایک غلام بھی  روانہ کیا ، راستے میں کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہوگیا ، کوفہ پہنچ کر غلام نے دعویٰ کردیاکہ یہ لڑکا میرا غلام ہے اور میں اس کا آقا ہوں ، یہ کہہ کر اس نے لڑکے کو بیچنا چاہا ، جب یہ مقدمہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے اپنے خادم سےفرمایا : کمرے کی دیوار میں دو بڑے سوراخ بناؤ اور ان دونوں سے کہو : اپنے اپنے سر ان سوراخوں سے باہر نکالیں ، جب دونوں نے اپنے سر سوراخوں سے باہر نکال لئے ، تو حضرت علی رضیَ اللہُ عنہ نے  خادم سے فرمایا : رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کی تلوار لے آؤ ، خادم تلوار لایا تو آپ نے خادم سے کہا : غلام کا سر کاٹ ڈالو ، یہ سنتے ہی غلام نے فوراً اپنا سر پیچھے کرلیا جبکہ لڑکا اسی طرح کھڑا رہا ، یوں آپ کی حکمتِ عملی  سے معلوم ہوگیا  کہ “ غلام کون ہے؟ “ (خلفائے راشدین ، ص : 124) جھوٹے گواہ بھاگ گئے ایک مرتبہ حضرت علی رضیَ اللہُ عنہ کے پاس ایک شخص کو چوری کے  الزام  میں لایا گیا ساتھ گواہی دینے کے لئے دو گواہ بھی موجود تھے ، حضرت علی  رضی اللہ عنہ  دوسرے کام کی طرف متوجہ ہوگئے پھر آپ نے جھوٹے گواہوں کے بارے میں فرمایا : جب میرے پاس جھوٹا گواہ آیا ہے تو میں نے اسے سخت سزا دی ہے ، (کچھ دیر بعد )آپ نے ان دونوں گواہوں کو طلب کیا تو معلوم ہوا کہ وہ دونوں جھوٹے گواہ پہلے ہی فرار ہوچکے ہیں لہذا آپ نے ملزم کو بری کردیا۔ (مصنف ابی شیبہ ، 14 / 548 ، رقم : 29426) 17 اونٹ  کیسے تقسیم ہوں گے؟ ایک  مرتبہ حضرت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کے پاس 3 آدمی آئے اور کہنے لگے : ہمارے پاس 17 اونٹ ہیں ، ایک کا حصہ کل اونٹوں کا آدھا (2 / 1) ہے دوسرے کا حصہ تہائی (3 / 1) ہے اور تیسرے آدمی کا حصہ سب اونٹوں میں نواں (9 / 1) ہے ، آپ ہمارے درمیان اونٹ تقسیم کیجئے مگر شرط یہ ہے کہ انہیں  کاٹنا نہ پڑے۔ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے بیتُ المال سے ایک اونٹ منگوایا ، اب 18 اونٹ ہوگئے  پہلا شخص جس کا حصہ تمام اونٹوں میں آدھا تھا اسے 18 کے آدھے یعنی 9 اونٹ دے دیئے ، دوسرا شخص جس کا حصہ تہائی  تھا اسے 18 کا تہائی یعنی 6 اونٹ دے دئیے ، پھر تیسرا شخص جس کا حصہ کل اونٹوں میں نواں تھا اسے کل اونٹوں کا نواں حصہ یعنی 18 میں سے 2 اونٹ دےدیئے اس طرح آپ رضیَ اللہُ عنہ نے حسن تدبیر سے ایک مشکل مسئلے کا فیصلہ کردیا اور 9 ، 6 ، اور 2 اونٹ ملاکر کل 17 اونٹ ان تینوں میں تقسیم بھی کردئیے اورکسی اونٹ کو کاٹنا بھی نہ پڑا ، ایک اونٹ جو باقی بچا اسے بیتُ المال میں واپس پہنچا دیا گیا۔ (خلفائے راشدین ، ص : 126ملخصاً)  ایک درہم ملا دو شخص صبح کے وقت کھانا کھانے کےلئے بیٹھے تھے ، ایک کے پاس 5 روٹیاں جبکہ دوسرے کے پاس 3 روٹیاں تھیں ، اتنے میں ادھر سے ایک شخص گزرا ، ان دونوں نے اس کو بھی اپنے ساتھ بٹھالیا اور تینوں نے وہ  آٹھ روٹیاں مل کر کھالیں ، تیسرے شخص نے جاتے ہوئے 8 درہم ان دونوں کو دئیے اور کہا : میں نے تمہارے ساتھ جو کھانا کھایا ہے اس کی یہ قیمت ہے تم اسے آپس میں تقسیم کرلو ، اب ان دونوں میں تقسیم پر جھگڑا ہوا۔ 5 روٹیوں والے شخص نے کہا : میں 5 درہم لوں گا  کہ میری روٹیاں 5 تھیں اور تم 3 درہم لوکہ  تمہاری روٹیاں 3 تھیں ، دوسرے نے کہا : نہیں! رقم آدھی آدھی تقسیم ہوگی ، دونوں یہ معاملہ لے کر حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ نے (مشورہ دیتے ہوئے ) 3 روٹی والے شخص سے فرمایا : تمہارا ساتھی جو تمہیں دے رہا ہے  اسے قبول کرلو کیونکہ اس کی روٹیاں زیادہ تھیں ، وہ کہنے لگا : میں صرف انصاف والی بات کو قبول کروں  گا ، آپ نے فرمایا : انصاف یہی ہے کہ تم ایک درہم لو اور تمہارا ساتھی 7 درہم لے ، اس نے حیرت سے کہا : میرے  ساتھی نے  مجھے 3 درہم دینے چاہے لیکن میں راضی نہیں ہوا ، آپ نے یہی مشورہ دیا مگر میں نے قبول نہیں کیا اور اب آپ یہ فرمارہے ہیں کہ انصاف کے طریقے پر میرا حق ایک درہم بنتا ہے آپ مجھے سمجھائیے کہ میرا حق ایک درہم کیسے ہے؟ پھر میں ایک درہم قبول کرلوں گا ، آپ رضیَ اللہُ عنہ نے فرمایا :  8 روٹیوں کے 24 حصے تم تین آدمیوں نے کھائے ، یہ پتا نہیں کہ  کس نے کم کھایا اور کس نے زیادہ کھایا؟ اس لئے یہ سمجھ لو کہ سب نے برابر برابر کھایا ہے (یعنی ہر ایک نے آٹھ حصے کھائے) تم نے اپنی 3 روٹیوں کے 9 حصوں میں سے آٹھ حصے کھالئے ، تمہارا ایک حصہ باقی رہا ، اور تمہارے ساتھی نےاپنی 5 روٹیوں کے 15 حصوں  میں سے 8 حصے کھائے اس کے 7 حصے باقی رہے ، تیسرے شخص نے تمہارے روٹیوں میں سے ایک حصہ کھایا اور تمہارے ساتھی  کے سات حصے کھائے ، اب انصاف کے مطابق تم کو ایک درہم اور تمہارے ساتھی کو 7 درہم ملیں گے ، تفصیل سننے کے بعد اس جھگڑنے والے شخص کو ایک درہم  لیناپڑا۔ (استیعاب ، 3 / 207 ملخصاً) مرحوم کی وصیت ایک شخص نے مرتے وقت اپنے دوست کو 10 ہزار دئیے اور وصیت کی : جب تم میرے لڑکے سے ملاقات کرو تو اس میں سے جو تم چاہو وہ اس کو دے دینا ، اتفاق سے کچھ روز بعد اس کا لڑکا وطن واپس آگیا ، اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے پوچھا : بتاؤ! تم مرحوم کے لڑکے کو کتنا دوگے؟ اس نے کہا : ایک ہزار ، آپ نے فرمایا : اب تم اس کو 9 ہزار دو ، اس لئے کہ جو تم نے چاہا وہ 9 ہزار ہیں اور مرحوم نے یہی وصیت کی تھی کہ جو تم چاہو وہ اس کو دے دینا۔ (خلفائے راشدین ، ص : 125) شہادت حضرت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  نے 4 برس 9 ماہ چند دن امورِ خلافت سر انجام دئیے ، آخر کار اس دنیا میں 63 سال گزار کر خارجی ا بن ملجم کے ہاتھوں کوفہ میں 21 رمضان المبارک 40ھ کو شہادت پائی۔ (تاریخ ابن عساکر ، 42 / 577۔ کتاب العقائد ، ص : 45)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*مُدَرِّس مرکزی جامعۃالمدینہ ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی

 

 


Share

Articles

Comments


Security Code