بزرگانِ دین کا شوق مطالعہ / نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت/ جنّت کیسی ہے؟

یہ دنیا بہت بڑی ہےاس میں بہت سے نامور ، قابل اور مقبول انسان گزرے ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے۔ ان کی کامیابی کا ایک راز شوقِ مطالعہ تھا۔ یقیناًراہِ علم کا سفر آسان نہیں مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دُشواریاں منزل تک پہنچنے میں رُکاوٹ نہیں بنتیں۔ ہمارے بزرگانِ دینرحمۃ اللہ علیہم بڑے ذوق و شوق اورلگن کے ساتھ علمِ دین حاصل کیا کرتےتھے جیسا کہ درج ذیل مثالوں سے واضح ہورہا ہے :

(1)ایک مرتبہ صحیح مسلم کے مصنف امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ سے کسی حدیث کے بارے میں پوچھاگیاتو آپ نے اُس حدیث کوتلاش کرنا شروع کر دیااور ساتھ ساتھ ٹوکرے سے  کھجوریں بھی کھاتےرہے ، مطالعے میں اتنے ڈوبے ہوئے تھےکہ کھجوروں کا پتا ہی نہ چلااور حدیث ملنے تک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالی ہوگیا ،  غیر ارادی طور پر اتنی زیادہ کھجوریں کھالینے کے سبب آپ بیمار ہوگئے اور اسی مرض میں آپ کا انتقال ہوگیا۔ (تھذیب التھذیب ، 8 / 150) (2)امام محمد  رحمۃ اللہ علیہمطالعے کے لئے شب بیداری فرمایا کرتے تھےاورمنقول ہے کہ آپ اپنے پاس پانی رکھا کرتے تھے جب نيند کا غلبہ ہو نے لگتا تو چہرے پر  پانی کے چھینٹے مار کرنيند کو دُور فرما دیتے۔ (تعلیم المتعلم ، ص : 10)(3)شیخ ِمُحقق شیخ عبدُالحق محدث دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کُتُب بینی کا حال ارشاد فرماتے ہیں کہ مطالعہ کرنا میرا شب وروز کا مشغلہ تھا ، بسا اوقات یوں بھی ہوتا کہ دوران ِ مطالعہ قریب جلتے ہوئے چراغ سے سر کے بال اور عمامہ جل جاتا لیکن مطالعہ میں مگن ہونے کی وجہ سے پتہ نہ چلتا ۔ (اشعۃ اللمعات ، مقدمہ ، ص72) (4)اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کے شوقِ مطالعہ کا بچپن ہی میں یہ عالم تھا کہ اُستاذسے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی بلکہ چوتھائی کتاب استاذسے پڑھنے کے بعد بقیہ تمام کتاب خود مطالعہ کرکے استاد کو زبانی سنا دیا کرتے تھے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ، 1 / 213) (5)پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ موسِمِ سرما کی طویل رات مطالعے میں گزر جاتی حتی کہ اذانِ فجرہوجاتی۔ (مطالعہ کیاکیوں اور کیسے ، ص41) (6)محدِّث ِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمۃ اللہ علیہ کو مطالعے کا اتنا شوق تھا کہ نمازِ باجماعت میں کچھ تاخیر ہوتی تو کسی کتاب کا مطالعہ کرنا شرو ع   کر   دیتے۔ ( تذ کرہ امیرِاہلسنت ، قسط : 4)(7)اوراگر بات کریں امیرِ اہلِ سنّت مولانا الیاس قادریدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تو آپ  کے شوقِ مطالعہ کا تویہ عالم ہے کہ آپ نہ صرف خود مطالعے کا شوق رکھتے ہیں بلکہ اپنے مریدین ومحبین کو بھی دینی کُتُب بالخصوص فتاوٰی رضویہ ، بہارِشریعت ، تمہیدُ الایمان ، منہاجُ العابدین اوراِحیاء العلوم وغیرہ کے مطالعہ کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں ۔                  (تذکرہ امیرِ اہلسنت قسط : 4)

اللہپاک ہمیں بھی ان بزرگانِ دین کے صدقے ورق گردانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

بابر عارف عطاری بن ڈاکٹر محمد عارف

درجہ خامسہ ، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی


Share

بزرگانِ دین کا شوق مطالعہ / نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت/ جنّت کیسی ہے؟

اللہ پاک نے ہمیں اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا ہے اور  عبادتیں بہت طرح کی ہیں۔ اعضائے بدن سے کی جانے والی عبادت ، زبان سے کی جانے والی ، اور دل سے کی جانے والی عبادت۔

نماز وہ پیاری عبادت ہے کہ اس میں یہ تینوں عبادات کی صورتیں پائی جاتی ہیں۔ رکوع ، سجود ، قیام اور قعود اعضاء بدن سے ہوتے ہیں۔ ذکر و درود ، تسبیح و تکبیر اور تلاوت زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ اور نماز کی نیت ، اللہپاک کی بارگاہ میں حاضری کا تصور ، حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تصور سلام عرض کرتے ہوئے ، اور خشوع و خضوع  دل سے ہوتے ہیں۔

نماز میں خشوع و خضوع ان تمام میں سب پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں اکثر چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ  میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نماز کا کمال  نماز کا نور ، نماز کی خوبی فہم و تدبر و حضور قلب(یعنی خشوع و خضوع) پر ہے۔ امیر اہلِ سنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہاس فرمان کو نقل کرنے کے  بعد فرماتے ہیں : مطلب یہ کہ اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔   (فیضانِ نماز ، ص 282)

ایک بات یہ بھی ہے کہ کامل مومن ہی وہ ہے جو اپنی نماز

 میں خشوع کو اپنائے۔ جیساکہاللہ کریم سورۃُ المُؤمنون  کی آیت نمبر1اور 2میں ارشاد فرماتا ہے :  قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) تَرجَمۂ کنز الایمان : بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے۔ جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ہمارے بزرگانِ دینرحمۃ اللہ علیہم نماز میں خشوع و خضوع سے واقف تھے۔ ان کی نماز میں حالتیں وہ ہوتی تھیں کہ مثال نہیں ملتی۔ ان کے چند واقعات میرے پیرِ طریقت مولانا الیاس قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب فیضانِ نماز سے پیش کرتا ہوں :

(1)حضرت عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو (ہم ایسے ہوجاتے)گویا آپ ہمیں نہیں پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے۔          (فیضانِ نماز ، ص 283)

(2) تابعی بزرگ حضرت سیدنا مسلم بن یساررحمۃ اللہ علیہ اس قدر توجہ کے ساتھ نماز پڑھتے کہ اپنے آس پاس کی بھی خبر نہ ہوتی ، ایک بار نماز میں مشغول تھے کہ قریب آگ بھڑک اٹھی لیکن آپ کو احساس تک نہ ہوا حتی کہ آگ بجھا دی گئی۔      (سابقہ حوالہ ، ص 282)

(3) حضرت سیدناعبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بچپن میں دیکھی ہوئی ایک عبادت گزار خاتون مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ انہیں بچھو نے چالیس ڈنک مارے مگر ان کی حالت میں ذرا بھی فرق نہ آیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئیں تو میں نے کہا : اماں! اس بچھو کو آپ نے ہٹایا کیوں نہیں؟ جواب دیا : صاحبزادے! ابھی تم بچے ہو ، یہ کیسے مناسب تھا! میں تو اپنے رب کے کام میں مشغول تھی ، اپنا کام کیسے کرتی؟

(سابقہ حوالہ ، ص 294)

اللہپاک کی ان سب پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو اور نماز میں خشوع و خضوع اپنانے کی سعادت حاصل ہو۔          اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نام : حسان رضا عطاری بن محمد یعقوب عطاری

درجہ خامسہ مکی ، مرکزی جامعۃالمدينہ کراچی


Share

بزرگانِ دین کا شوق مطالعہ / نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت/ جنّت کیسی ہے؟

جنّت وہ مقامِ رحمت ہے جسے رب تعالیٰ نے اپنے اطاعت گزار بندوں کے لئے تخلیق فرمایا ہے۔ جنّت کا نام زبان پر آتے ہی ہمارے دل و دماغ پر سرور کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ (جنت کی دو چابیاں ،  ص 14 ) جنّت کن چیزوں سے بنی ہے؟ حضرت سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں جنّت اور اس کی تعمیر سے متعلق بتائیے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اس کی ایک  اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی ہے ، اور اس کا گارا مشک کاہے اور اس کی کنکریاں موتی اور یاقوت کی ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے۔ (ترمذی ، 4 / 236 ، حدیث : 2534)حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : جنّت کی زمین سفید ہےاس کا میدان کافور کی چٹانوں کا ہے اس کے گرد ریت کے ٹیلوں کی طرح مشک کی دیواریں ہیں اور اس میں نہریں جاری ہیں۔ (الترغیب و الترھیب ، 4 / 283 ، حدیث : 34) جنّت کی نعمتیں:حضرت سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہپاک نے ارشادفرمایا کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی ایسی نعمتیں تیار  کر رکھی ہیں کہ جن کو نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ  اس کی خوبیوں کو کسی کان نے سنا  اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر اس کی ماہیت کا خیال  گزرا۔ (مسلم ، ص1516 ، حدیث : 2824) جنّت کتنی بڑی ہے:حضرت سیّدنا عُبادہ بن صامِت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمتِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جنّت میں سو منزلیں ہیں اور ان میں سے ہر دو منزلوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ (ترمذی ، 4 / 238 ، حدیث : 2539)جنّت کے دروازے:حضرت سیّدنا سہل بن سعد رضی اللہ  عنہ  سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ  علیہ و سلم نے فرمایا : جنّت کے آٹھ دروازے ہیں۔ (بخاری ، 2 / 394 ، حدیث : 3257)جنّتی زبان:جنّت میں عربی زبان بولی جائے گی۔ (معجم الاوسط ، 4 / 266 ، حدیث : 5583) جنّتی دریا:جنّت میں پانی ، شہد ، دودھ اور شراب کا دریا ہے جن سے آگے نہریں نکلتی ہیں۔ (ترمذی ، 4 / 257 ، حدیث : 2580) جنّت میں نیند:حضرت سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک شخص نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی : کیا اہلِ جنّت سویا کریں گے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا : نیند جنسِ موت سے ہے اور جنّتیوں کوموت نہیں آئے گی۔ (مشکاۃ المصابیح ، 3 / 230 ، حدیث : 5654) جنّتیوں کی عمریں:حضرت سیّدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اہلِ جنّت میں سے جو کوئی چھوٹا یا بوڑھا مرجائے گا تو اسے جنّت میں 30سال کا بنادیا جائے گا۔ (ترمذی ، 4 / 254 ، حدیث : 2571)  کیا یہ نعمتیں جنّتیوں کے پاس ہمیشہ رہیں گی؟جنّتیوں کو یہ نعمتیں ہمیشہ کے لئے دی جائیں گی جیساکہ سورہ ٔتوبہ میں ہے : یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌۙ(۲۱) خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۲۲) تَرجَمۂ کنز الایمان : ان کا رب  انہیں خوشی سناتا ہے  اپنی رحمت  اور اپنی رضا کی  اور ان باغوں کی جن میں انہیں دائمی نعمت ہے ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں  گے بے شک اللہ کے پاس  بڑا ثواب ہے۔ (پ10 ، التوبۃ : 21 ، 22)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ہمشیرہ  رئیس عطاریہ

درجہ ثانیہ ، جامعۃا لمدینہ فیضان امطارِ مدینہ کراچی


Share