رسولُ اللہ صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وفود کے ساتھ انداز (قسط:01)

انداز میرے حضور کے

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وفود کے ساتھ انداز (قسط:01)

*مؤلف:شہروز علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء

جب اسلام کی روشنی مکہ و  مدینہ سے پھیلتے پھیلتے دور تک پہنچی تو عرب و عجم کے دور و نزدیک والےشہروں اور دیہاتوں  سے  نہ صرف ایک ایک دو دوکر کے لوگ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہونے لگے بلکہ وفد کی صورت میں حاضری دینے والوں کا بھی تانتا بندھ گیا۔کوئی اسلام قبول کرنے آ رہا ہے تو کوئی دین سیکھنے،کوئی اپنے مسائل حل کروانے آرہا ہے توکوئی زیارتِ رخِ اقدس سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے، کوئی دُعاؤں کی خیرات پانے آرہا ہے تو کوئی انعامات کی بارش میں نہانے۔

ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان آنے والوں پر شفقتوں، عنایتوں،نوازشوں اور کرم و مہربانی کے دریا بہاتے تھے، یہاں خاص طور پر وُفُود(Delegations) کے ساتھ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے مختلف انداز ملاحظہ فرمائیے:

اصلا ح  کا منفرد انداز: اللہ پاک کے آخری رسول  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آنے والے وفود کی اصلاح کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اصلاح کا انداز اتنا میٹھا ہوتا  کہ سامنے والا بغیر حجت کے آپ کی بات ماننے کو تیار ہوجاتاجیسا کہ بنو کِندہ کے اَسّی آدمیوں کا ایک وفد بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا،اُس وفد کے سردار  کا نام اَشعث بن قیس تھا۔ وہ اپنے علاقے کے حکمران تھے اور ان کے ساتھی بھی صاحبِ حیثیت تھے۔ یہ سب اصحاب اگرچہ اسلام قبول کر چکے تھے لیکن انہوں نے ریشم پہنا ہوا تھا۔ چنانچہ مدینہ میں اس حالت میں حاضر ہوئے کہ سب نے اپنے کندھوں پر حِیْرَہ کی زریں چادریں ڈال رکھی تھیں جن کے کناروں پر ریشم کی لیس لگائی گئی تھی ۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا :کیا تم اسلام قبول نہیں کر چکے؟  انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم اللہ کے فضل سے نعمتِ اسلام  پا چکے ہیں۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : پھر یہ ریشم کیسا؟ اہلِ وفد اپنی غلطی پر متنبہ ہوئے اور سب نے فوراً چادریں زمین پر پھینک دیں۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کا جذبہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جب وہ رخصت ہونے لگے تو آپ نے رئیسِ وفد اَشْعث بن قَیس  کو بارہ اُوْقِیَہ اور دوسرے لوگوں کو دس دس اوقیہ بطورِ انعام عطا فرمایا۔  ([1])

تربیت فرمانا: فتحِ مکہ کے بعد قبیلۂ صَدِف کی ایک جماعت حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ یہ لوگ اسلام قبول کر چکے تھے،جب رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خطبہ ارشاد فرما رہےتھے ۔ یہ اچانک سے سامنے آ گئے اور بغیر سلام کئے بیٹھ گئے۔ حضور نے ان سے پوچھا: تم مسلمان ہوناں؟ انہوں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ! ہم مسلمان ہیں۔ نبیِّ ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تو پھر تم نے سلام کیوں نہیں کیا؟ یہ سن کر انہیں سخت ندامت ہوئی اور سب نے کھڑے ہو کرکہا: السّلامُ عَلیکَ اَیُّہَا النَّبیُّ وَرحمۃُ اللہ۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جواب میں وَعَلیکُمُ السَّلامُ فرمایا اور حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ،وہ بیٹھ گئے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے اوقاتِ نماز کے بارے میں سوال کرنے  لگے تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے انہیں نماز کے اوقات سکھائے۔([2])

 وفد کا نام بدلنا:  فتحِ مکہ سے قبل وفدِ جُہَیْنَہ سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خدمت میں حاضر ہوا یہ وفد عبدُ الْعُزّٰی بن بدر اور ان کے ماں شریک بھائی اَبُورَوْعَۃ  کی سربراہی میں حاضر ہوا۔ چونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جاہلی ناموں کو سخت ناپسند فرماتے تھے چنانچہ آپ نے عبدُ الْعُزّٰی سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم آج سے عبد اللہ ہو۔ (قبیلۂ جہینہ بنی غیّان کی شاخ تھا۔ غیّان کے معنی چونکہ سرکشی کے ہوتے ہیں اس لئے)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کا نام بھی بدل دیا اور فرمایا :آئندہ تمہارا قبیلہ” بَنِی رَشدان“کہلائے گا۔(یعنی ہدایت یافتہ لوگ) جس وادی میں ان لوگوں کا مسکن تھا اس کا نام غَویٰ(گمراہی) تھا۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےاس کا نام رُشد (یعنی ہدایت کی وادی) رکھ دیا۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی مسجد کے لئے جگہ نشان زد فرمائی۔([3])

ایک موقع پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں قبیلہ ”اَحمس “ کے اڑھائی سو افراد آئے۔حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے پوچھا :تم کون لوگ ہو؟انہوں نے عرض کی: ہم ”اَحْمَسُ اللہ“ ہیں (یعنی اللہ پاک کے جوش دلائے ہوئے)۔ زمانۂ جاہلیت میں انہیں اسی طرح کہا جاتا تھا۔ حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کا نام بدل کر” اَحْمَسُ لِلہِ(یعنی اللہ پاک کے لئے جوش دلانے والے) رکھ دیا۔([4])

عطاو سخا میں مقدم کرکے عزت دینا:جب یہ بنو احمس کا وفد آیا تواس وقت بارگاہِ نبوی میں بنو بَجیلۃ کا وفد بھی موجود تھا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےبنو احمس والوں کی عزت افزائی فرمائی اور حضرت بلال رضی اللہُ عنہ سے فرمایا:بَجِیلۃ کے وفد کو عطا کرو اور احمس والوں  سےابتدا کرو ۔انہوں نے ایسا ہی کیا۔([5])

یہاں  نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے   عطا کی ابتدا احمس والوں سے  فرما کر  ان کے مقام و مرتبے  کا لحاظ فرمایا۔

دعاؤں سے نوازنا:جب  قبیلۂ اسلم اور قبیلۂ غِفار کو بھی قبولِ اسلام کی سعادت نصیب ہوئی اوروہ خدمتِ نبوی میں باریاب ہوئے۔ انہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!ہم نے دل و جان کے ساتھ اللہ کی اور آپ کی اطاعت اختیار کی ہمیں کوئی ایسی چیز عطا فرمائیں کہ ہم دوسرے قبائل کے سامنے اپنا سر عزت کے ساتھ بلند کر سکیں۔حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کی درخواست کے جواب میں دستِ دعا اُٹھا کر فرمایا : اَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ وَغِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا یعنی اسلم اللہ کو سلامت رکھے اور غفار کی اللہ مغفرت فرمائے۔([6])

یہ دعا اہلِ وفد کے لیے اتنا بڑا اعزاز تھی کہ وہ فرطِ مسرت سے پھولے نہیں سماتے تھے۔

اسی طرح آپ نے نہ صرف بنو احمس کی عزت افزائی فرمائی بلکہ ان کے لئے دعائے خیر بھی فرمائی جیسا کہ مسند احمد میں ہے:”مولا! احمس کے پیدل دستوں اور گھڑسواروں میں برکت فرما ۔“ آپ نے یہ دعا سات بارمانگی۔([7]) (بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])طبقات ابن سعد، 1/248،تاریخ دمشق مدینہ،9/123ماخوذاً

([2])السیرۃالنبویۃ لابن کثیر،4/181،طبقات ابن سعد، 1/248

([3])دیکھئے:طبقات ابن سعد، 1/251

([4])طبقات ابن سعد،1/261 مختصراً

([5])سبل الہدیٰ والرشاد، 6/261-تاریخ مدینہ دمشق،24/422

([6])طبقات ابن سعد، 1/265مفہوماً

([7])مسند احمد ، 31 / 129 ، حدیث: 18834


Share