پروکریسٹی نیشن(Procrastination)

انسان اور نفسیات

پروکریسٹی نیشن(Procrastination)

*ڈاکٹر زیرک عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری2024 ء

پروکریسٹی نیشن (پرو-کریس-ٹی-نیشن،Procrastination) انگریزی زبان کا بڑا ہی مشکل اور عُرفِ عام میں بہت ہی کم استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ جس طرح اس کی ادائیگی زبان پر بھاری ہے کچھ ایسے ہی اس کا مفہوم بھی ہماری طبیعت پر گراں ہے۔ لغت میں اس کا معنی تاخیر کرنا ہے۔ اس مضمون کے اعتبار سے Procrastination کا مطلب ہے روز مَرّہ کے محنت طلب کاموں میں تاخیر کرنا۔ یعنی کہ سستی اور کاہلی۔ ابھی نہیں بعد میں۔ آج نہیں کل۔ ابھی تو پورا ہفتہ پڑا ہے۔ ابھی تو پوری زندگی باقی ہے۔ کرلیں گے بعد میں۔

چھوٹا ہو یا بڑا، غریب ہو یا امیر، تعلیم کا میدان ہو یا کھیل کُود، لوگوں کی خدمت ہو یا عبادتِ الہٰی، معاشرے کے نامعلوم افراد سے لے کر جانی پہچانی شخصیات تک کم وبیش سب ہی سُستی کا کسی نہ کسی حد تک شکار ہیں۔ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ سستی سے بچا ہوا ہے۔ سُستی دنیاوی معاملات میں بھی ہمارا نقصان کرتی ہے اور اس سے ہماری آخرت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ فرائض و واجبات میں سستی رب کی ناراضی کا سبب ہے۔ نوافل و مستحبات میں سستی آخرت میں اعلیٰ درجات سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔

سستی کی وجہ سے والدین اور اولاد کا تعلق خراب ہو جاتا ہے۔ سستی کی وجہ سے زوجین میں تلخ کلامی رہتی ہے۔ بہن بھائی بھی ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ سیٹھ اور ملازم میں بات بگڑ جاتی ہے۔ الغرض سستی کا زندگی کے ہر شعبے میں ایک گہرا اثر ہے اور اس کا انجام بھیانک ہے۔

سستی ایک اختیاری فعل ہے۔ یعنی ہم جان بوجھ کر سستی کرتے ہیں۔ جس چیز کا اتنا نقصان ہے پھر بھی ہم اس سے جان کیوں نہیں چُھڑا پاتے؟ اس سوال کا جواب تب تک سمجھ نہیں آ سکتا جب تک ہم سستی کی نفسیات کو نہیں سمجھ پاتے۔ آپ ہو سکتا ہے کہ حیران ہوں کہ سستی کی کیا نفسیات ہے؟ ہر بات میں آپ کھینچ تان کر نفسیات کو لے آتے ہیں؟ نفس ہے تو نفسیات بھی ساتھ ہے۔ چلیں آئیں سستی کی نفسیات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسان کی فطرت میں حرص اور لالچ کا اہم کردار ہے۔ جن کاموں کے کرنے سے ہمیں لطف ملے، لذت ملے، خوشی حاصل ہو، کوئی تحفہ یا انعام ملے تو ہم وہ کام بار بار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کام کے لئے جتنی بھی محنت کرنی پڑے ہم کرتے ہیں۔ مثلاً چھوٹے بچے کو کہا جائے کہ آپ اللہ بولو تو آپ کو بسکٹ ملے گا۔ تو شاید ہی کوئی ایسا بچہ ہو کہ جو اللہ نہ بولے۔ کیوں کہ بچے کو معلوم ہے کہ لفظ اللہ بولنے پر میٹھی چیز یعنی بسکٹ ملے گا اور میٹھا کھانے سے لذت ملتی ہے۔

اب جس کام کا انعام جتنا جلدی ملتا ہو اتنا ہی اس کام کے کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً جس بچے کو والدین اچھا کام کرنے پر فوراً انعام دیتے ہیں تو وہ بچہ اچھی عادات جلد سیکھ جاتا ہے۔ شاید اسی لئے بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃُ اللہِ علیہ کی والدہ ہر نماز سے پہلے آپ کے مصلےکے نیچے شکر رکھ دیتی تھیں جوکہ نماز کے بعد آپ کو ملاکرتی تھی۔ ویسے اللہ والوں کے انداز نرالے ہوتے ہیں۔

اب اس کے برعکس اگر کسی بچے کو کہا جائے کہ آپ ہر دن سو بار اللہ بولیں اور ساتویں دن آپ کو بسکٹ کا پورا ایک پیکٹ دیا جائے گا تو کیا خیال ہے کہ بچہ اللہ بولنے کی عادت اپنائےگا؟ بہت مشکل بلکہ آپ کہیں گے کہ کسی حد تک ناممکن ہے۔

لیکن یہ کیا؟ بات سُستی کی ہو رہی ہے اور ہمیں درس کام کرنے اور اس پر انعام ملنے کا دیا جا رہا ہے؟ جی ہاں! کیونکہ سُستی بھی ایک کام ہے جس کا انعام آپ کو ہاتھوں ہاتھ مل رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آپ سستی کو چاہتے ہوئے بھی نہیں چھوڑ پا رہے، ارے وہ کیسے جناب؟

وہ ایسے کہ روز مَرّہ کے محنت طلب کام جن کا انعام ہمیں سالوں بعد یا پھر مرنے کے بعد ملنا ہے ہم ان کاموں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اور ان کی بجائے وہ لایعنی کام کر رہے ہیں جن سے ہمارے مَن کو فِی الفور تسکین یا لذت مل رہی ہے۔ موبائل پر گھنٹوں گزر جاتے ہیں۔ گھنٹوں کیا پوری رات گزر جاتی ہے۔ کیوں کہ اس سے ہمیں ایک عجیب، پُر لطف تسکین ملتی ہے۔ اور وہ بھی فوراً۔ اس کے برعکس اگر یہی رات اللہ پاک کی عبادت میں گزاری جائے تو اس کا انعام کیوں کہ ہمیں نظر نہیں آتا یا ہماری عقل کے مطابق فوراً نہیں ملتا لہٰذا ہم عبادت کو بجا نہیں لاتے۔

امید ہے کہ آپ سستی کی نفسیات سمجھ گئے ہوں گے۔ اگر آپ کو یہاں تک کی گفتگوسمجھ آ گئی ہے تو میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگلی سطروں میں کیا لکھا جائے گا آپ کے ذہن میں اس کا خاکہ بھی بن رہا ہوگا۔

سستی چھوڑنی ہے تو ہمیں دُور رَس (Long term) انعامات پر فوکس کرنا ہوگا۔ بحیثیتِ طالبِ علم سالوں کی محنت کے بعد ملنے والی اچھی نوکری پر فوکس، بحیثیتِ بزنس مین کئی ناکامیوں کے بعد حاصل ہونے والی شاندار کامیابی پر فوکس اور سب سے ضروری بات بحیثیتِ مسلمان زندگی بھر اللہ پاک کی اطاعت کرنے پر آخرت میں جنت کی نعمتوں پر فوکس۔

تو پھر فی الفور انعام والی نفسیات کدھر گئی؟ وہ بھی ساتھ ہی ہے ورنہ نفس کو اچھے کاموں کا عادی بنانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ جب نماز پڑھیں تو اپنے رب کے حضور سجدہ ریزی کی لذت کو محسوس کریں۔ جب تلاوتِ قراٰن کریں تو کلامِ الہیٰ کی حلاوت کا لطف اٹھائیں۔ جب درودِ پاک پڑھیں تو ذہن کو ملنے والے سکون پر فوکس کریں۔

الغرض لایعنی کاموں کے نقصانات پر فوکس کر کے اپنے مَن کو ان کاموں کے چھوڑنے پر راضی کریں۔ اچھے اور نیک کاموں کے جلد یا بدیر ملنے والے انعامات پر فوکس کر کے اپنے من کو ان کاموں کا عادی بنائیں۔ اس کے لئے علم دین سیکھنا اور اچھی صحبت کا ہونا لازم ہے۔

مضمون مزید طویل ہو سکتا تھا مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ امید ہے آپ کو سستی کی نفسیات سمجھ آ گئی ہو گی۔ آئیے مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہم سب کو سستی سے نجات عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ماہرِ نفسیات، U.K


Share

Articles

Comments


Security Code