یادِ موت

شرح حدیثِ رسول

یادِ موت (Remembrance of death)

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2024ء

ہم اپنی زندگی میں پیش آنے والی سینکڑوں چیزوں کو یاد رکھتے ہیں لیکن ایک بہت ہی اہم چیز کویاد کرنا اکثر بھول جاتے ہیں، وہ ہے ”موت“! یہ وہ کام ہے جس کی نصیحت آخری نبی، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمائی ہے جن کے مبارک قدموں پر ہم سب کی عقلیں اور حکمتیں قربان ہوجائیں؛

حدیثِ پاک عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لذتوں کو ختم کردینے والی موت کو کثرت سے یاد کرو۔([1])

شرحِ حدیثاَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ“کے تحت علّامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:اَي نَغِّصُوْا بِذِكرِهٖ لَذَّاتِكُمْ حَتّٰى يَنْقَطِعَ رُكُوْنُكُمْ اِلَيْهَا فَتَقَبَّلُوْا عَلَى اللهِ یعنی موت کوکثرت سے یاد کرکے اپنی لذتوں کو بےمزہ کردو یہاں تک کہ ان کی طرف تمہارا میلان ختم ہوجائے اور تم اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔([2]) یہ مبارک فرمان ہر شخص کیلئے ہے، چاہے اس کے پاس دنیاوی لذتیں موجود ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ ان لذتوں کو حاصل کرنا چاہتا ہو۔([3])

زیادہ سمجھدار کون؟ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ایک انصاری شخص حاضر ہوا، سلام عرض کیا اور پوچھا: یارسولَ اللہ! کون سے مؤمن افضل ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں۔ اس نے پھر عرض کی: کون سے مؤمن زیادہ عقل مند ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو ان میں سے سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والے ہوں اور اس کے بعد کے لئے زیادہ اچھی تیاری کریں وہی زیادہ عقل مند ہیں۔([4])

ہم اور یادِ موت اسٹوڈنٹ اپنا سبق یاد کرنا نہیں بھولتا، خاتونِ خانہ نے دن بھر میں جو کام کرنے ہوں انہیں یاد رکھتی ہے، گھر کا سربراہ جب اپنے ادارے،آفس،کاروبار اور مزدوری وغیرہ سے واپس گھر کو روانہ ہوتا ہے تو عموماً وہ یاد رکھتا ہے کہ راستے سے اسے کون کون سی چیز لینی ہے تاکہ دوبارہ نہ آنا پڑے بلکہ بعضوں نے تو جیب میں پرچی لکھ کر رکھی ہوتی ہے یا پھر موبائل پر ریمائنڈر لگایا ہوتا ہے، نہیں رکھتے تو موت کو یاد نہیں رکھتے۔ پھر ہماری محفلوں میں طرح طرح کے موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے، ان میں کئی موضوعات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا ہماری زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، لیکن اگر کسی چیز پر بات نہیں ہوتی یا بہت ہی کم ہوتی ہے تو وہ ہے ”موت کی یاد“! بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کسی کے سامنے موت کو یاد کیا جائے کہ یہ زندگی کسی بھی لمحے ختم ہوسکتی ہے اور ہم کسی بھی وقت مر سکتے ہیں تو بعضوں کا ری ایکشن کچھ اس طرح کا ہوتا ہے: *ڈراؤ تونہیں *ابھی میں نے دیکھا ہی کیا ہے؟ *میری عمر ہی کیا ہے؟ *ابھی تو بہت کچھ کرناہے *زندگی کے مزے لینے ہیں وغیرہ۔

یاد رکھئے! موت ایک حقیقت ہے، ہم اس کو یاد کریں نہ کریں، یہ آکر رہے گی۔ البتہ یادِ موت سے ہمیں دنیا و آخرت کے فوائد کافی ملیں گے۔ ہمارا جسم ہمارے دل و دماغ کی سوچوں کے مطابق کام کرتا ہے تو جسے موت یاد ہو وہ کیونکر دنیا کی لذتوں سے دل لگائے گا؟ وہ کس طرح گناہوں کی دلدل میں پھنسے گا؟ بلکہ وہ تو جہانِ آخرت کے لئے نیکیوں کا خزانہ اکٹھا کرنے میں لگ جائے گا، اِن شآءَ اللہ۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اَکْثِرُوْا ذِکْرَ الْمَوْتِ فَاِنَّـہٗ یُمَحِّصُ الذُّنَوْبَ وَ یُزَھِّدُ فِی الدُّنْیَا یعنی موت کو زیادہ یاد کرو کہ یہ گناہوں کو مٹاتی اور دنیا سے بے رغبت کرتی ہے۔([5])

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور یادِ موت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: اس ذاتِ اقدس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جب بھی میں آنکھ جھپکتا ہوں تو مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں پلکیں مِلنے سے پہلے ہی میری روح قبض نہ کرلی جائے اور میں جب بھی کسی چیز کی طرف نگاہ اٹھاتا ہوں تو مجھے گمان گزرتا ہے کہ نگاہ نیچی کرنے سے پہلے میری روح قبض کر لی جائے گی اور جب کوئی لقمہ لیتا ہوں گمان ہوتاہے کہ اسے حلق سے اتارنے نہ پاؤں گا کہ موت اسے گلے میں روک دے گی، پھر فرمایا: اے بنی آدم! اگر تم عقل رکھتے ہو تو خود کو مرنے والوں میں شمار کرو، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے وہ وقت آنے والا ہے اور تم اس سے بھاگ نہیں سکتے۔([6])

الموت“ لکھا ہوا تھا شیخ عارف باللہ مولانا نورُالدین علی متقی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک تھیلی بنا کر اپنے پاس رکھی ہوئی تھی جس پر ”الموت“ لکھا ہوا تھا، آپ رحمۃُ اللہِ علیہ موت کا لفظ مرید کے گلے میں ڈال دیتے تا کہ اسے یہ بات یادر ہے کہ موت قریب ہے دُور نہیں ہے اور وہ اپنی امیدوں میں کمی اور عمل میں اضافہ کرے۔([7])

الموت، الموت“ کہتا رہے ایک نیک بادشاہ نے اپنے ارکانِ سلطنت میں سے ایک شخص کو اس بات پر مامور کر رکھا تھا کہ وہ اس کے پیچھے کھڑا ”الموت الموت“ کہتا رہے تا کہ (غفلت کی) بیماری کا علاج ہوتا رہے۔([8])

یادِ موت کے اس منفرد طریقے پر ہم بھی عمل کرسکتے ہیں کہ ایسی جگہ ”الموت“ لکھ دیں جہاں ہماری نظر پڑتی رہے، یوں ہمیں بھی اپنی موت یاد رہے گی اور غفلت کا علاج ہوتا رہے گا، اِن شآءَ اللہ۔ اس انداز کو شیخِ طریقت امیر ِاہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے بھی اپنایا ہوا ہے، چنانچہ آپ کے اِرد گِرد مختلف جگہوں پر ”الموت“ لکھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔

جنّت کا باغ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جسے موت کی یاد خوفزدہ کرتی ہے وہ اپنی قَبْر کو جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ پائے گا۔([9])

جانے والوں کو یاد کیجئے امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: موت کی یاد دل میں بسانے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ جو مرچکے ہیں اُن کے چہرے اور صورَتیں یاد کرے کہ انہیں موت نے ایسے وقت میں آدَبوچا تھا کہ جس کا انہیں وَہم و گمان بھی نہ تھا یعنی اچانک موت کا شکار ہو گئے تھے، البتہ جو موت کی تیاری کرکے بیٹھا تھا اُس نے بڑی کامیابی پائی جبکہ لمبی اُمید کے دھوکے میں مبتلا شخص نے بہت بڑا نقصان اٹھایا۔ انسان ہر گھڑی اپنے جسم کے متعلق یوں غور و فکر کرے کہ کس طرح کیڑے میرے جسم کو کھائیں گے، کس طرح میری ہڈیاں بکھر جائیں گی نیز یوں سوچے کہ نہ جانے کیڑے پہلے میری دائیں آنکھ کی پُتلی کھائیں گے یا بائیں آنکھ کی، آہ! میرا جسم کیڑوں کی خوراک بن چکا ہوگا۔ مجھے صرف وُہی علم و عمل فائدہ دے گا جو میں نے خالص اللہ کریم کے لئے کیا ہوگا۔اسی طرح کی سوچیں دل میں موت کی یاد تازہ رکھیں گی اور اس کی تیاری میں مشغول کریں گی۔([10])

موت کے موضوع پر تفصیل پڑھنے کیلئے ان کُتب و رَسائل کو پڑھ لیجئے: *شرحُ الصّدور *موت کا تصور *غفلت *قبر کا امتحان *قبر کی پہلی رات *مردے کی بے بسی *مردے کے صدمے *بادشاہوں کی ہڈیاں *قبر میں آنے والا دوست *قبر کی ہولناکیاں *قبر والوں کی 25 حکایات *خوفِ خدا۔

یہ کتب و رسائل دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ کئے جاسکتے ہیں۔ www.dawateislami.net

اللہ پاک ہمیں موت کو یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرّسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])صحیح ابن حبان،4/281، حدیث:2981

([2])التیسیر شرح جامع صغیر،1/201

([3])مرقاة المفاتيح،9/213،تحت الحدیث:5352ملخصاً

([4])ابن ماجہ،4/496،حدیث:4259

([5])موسوعہ ابن ابی الدنیا، 5/438،حدیث:148

([6])مسندالشامیین،2/365،حدیث:1505

([7])مرقاة المفاتيح،9/213،تحت الحدیث:5352

([8])مرقاة المفاتيح،9/213،تحت الحدیث:5352

([9])جمع الجوامع، 2/14،حدیث:3516

([10])احیاء العلوم،5/202 ملخصاً


Share