حضرتِ سیِّدُنا جارِیہ اَنصارِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہبیان کرتے ہیں: سرکارِ نامدار،دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو جب کسی کا نام یاد نہ ہوتا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اسے’’یَا اِبْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یعنی اے عبد اللّٰہ کے بیٹے !‘‘کہہ کر بلاتےتھے۔(جمع الجوامع،ج5، ص449، حدیث16418)
امام شرفُ الدِّین نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیلکھتے ہیں:جس کا نام معلوم نہ ہو اس کو ایسے لفظ سے پکارنا چاہیے جس سے اسے اَذِیّت نہ ہو،اس میں جھوٹ نہ ہواور نہ ہی خوشامد مثلاً:اے بھائی،اے میرے سردار،اے فُلاں،اے فُلاں کپڑے والے،اے گھوڑے والے،اے اُونٹ والے،اےتلوار والے ، نیزے والے وغیرہ ایسے اَلفاظ جو پکارنے والے اورپکارے جانے والے دونوں کے حسبِ حال ہوں ۔(الاذکار،ص231،ملخصاً)
میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو!ہمیں اکثر کسی کو بُلانے،اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے اسے پُکارنا ہوتا ہے،چنانچہ مسلمان چاہے وہ ہم سے بڑے ہوں یا چھوٹے،اُن کو پکارنے،ذِکْر کرنے میں اُ ن کے مقام ومرتبے کا خیال رکھا جائے اور اسی مُناسَبت سے اَلفاظ اور اَلقاب کا اِنتخاب کیا جائے،اگر نام معلوم ہو تو حسبِ ضرورت نام بھی لیا جائے مثلاً
(1)عُلَمائے کرام ومفتیانِ عِظام اور قابلِ احتِرام دینی شخصیات سے ہم کلام ہونے اور ان کا تذکرہ کرنے میں بھی ادب واحتِرام کوپیشِ نظر رکھنابہت ضروری ہے، مثلاًیوں کہہ کر مُخاطب کیجئے: ”مُفتی قاسِم صاحِب !حضرت ! حُضور! جناب!“ وغیرہ۔
(2)دینی استاذ رُوحانی باپ ہوتا ہے، اس لئے ان کو بھی تعظیمی انداز سے ”اُستاذِ محترم ،اُستاذجمیل صاحِب ،یَااُسْتَاذِیْ“ کہہ کر پکارنا چاہئے۔سرکارِنامدار،مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:عِلْم حاصل کرو اور عِلْم کے لئےاطمینان ووَقار سیکھو اور جس سے عِلْم حاصل کررہے ہو اس کے سامنے عاجِزی واِنکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط،ج4، ص342،حدیث6184)
(3)اسلام ایک کامِل واَکمل دین ہے جو ہمیں بُزُرگوں کا اِحترام سکھاتا ہے۔چنانچہ بوڑھوں کو حسبِ رَواج وعُرف عزّت سے پکارنا چاہئے مثلاً بعض علاقوں میں’’بابا جی‘‘،’’بڑے مِیاں‘‘ کہہ کرپکارنا مُرَوَّج ہے ۔اگر دادا، دادی یا نانا ،نانی حیات ہوں تو ان کو دادا حُضور، دادا جان ،دادا جی ، نانا حُضور ، ناناجان، نانا جی وغیرہ کہہ کر پکارنا چاہئے۔ سرکارِ ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:جو نوجوان کسی بزرگ کے سِن رَسِیدہ (یعنی بوڑھے)ہونے کی وجہ سے اس کی عزّت کرے تو اللہعَزَّ وَجَلَّاس کے لئے کسی کو مُقرّر کردیتا ہے جو اس نوجوان کے بڑھاپے میں اس کی عزّت کرے گا۔(ترمذی،ج3، ص411، حدیث:2029)
(4)والِدین کا اِحتِرام کرنا،انہیں عزّت سے پکارنا دونوں جہانوں میں ڈھیروں بھلائیاں پانے کا سبب ہے۔والِد صاحب کو حسبِ موقع اور حسبِ رَواج ”ابّوجی، ابّاحُضور، بابا“ وغیرہ کہہ کر پکارنا چاہئے، دُرِّ مختار میں ہے کہ باپ کو اس کا نام لے کر پکارنا مکروہ ہے۔ (بہارِ شریعت،ج3، ص657 بحوالہ در مختار،ج 9، ص690)اور والِدہ محترمہ کو ”امّی حُضور،امّی جان،امّی جی“ وغیرہ کہہ کر پکارنا چاہئے۔
(5)رشتے دار دو قسم کے ہوتے ہیں،ایک وہ جو عمر میں ہم سے بڑے ہیں اوردوسرے وہ جن کی عمر ہم سے کم ہوتی ہے۔ بڑے رشتے داروں کو پکارنے کے لئے مختلف زبانوں اور علاقوں میں مختلف اَلفاظ اور اَندازرائج ہیں،ان میں سے جو اَدب کے زیادہ قریب اور شریعت کے مطابق ہوں اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ انہیں اِختیار کرنا چاہیے۔بعض علاقوں میں ماموں جان،چچّا جان، بھائی جان وغیرہ بولا جاتا ہے حالانکہ وہ حقیقی ماموں،چچا یا بھائی نہیں ہوتے۔کم عمر رشتے داروں مثلاًچھوٹے بھائی بہن،بھانجے، بھتیجے نیز اپنی اولاد سے گُفتگو اور انہیں پکارنے میں شفقت سے بھرپور اورمُہذَّب انداز اَپنانا اور’’ آپ جناب‘‘سے بات کرنا نہ صِرف بات کرنے والے کی شخصیّت کی عکّاسی کرتا ہے بلکہ یہ اَنداز بچّوں کی تربیت میں بھی مُعاوِن ثابِت ہوتا ہے کیونکہ بچے عُمُوماً بڑوں کے اَقوال و اَفعال سے اثر لیتے اور ان کی نقّالی کرتے ہیں۔اس بارے میں ہمارے پیارے پیارے آقا،مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا طرزِ عمل کیا تھا اس رِوایت سے اندازہ لگائیے،چنانچہ کم و بیش 10سال رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خدمت کا شرف پانے والے حضرت سیِّدُنا اَنَس بن مالِک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت ہے کہ سرکارِمدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے بیٹے!(مسلم،ص1185،حدیث2151)
(6)بیوی اپنے شوہر کومُنّے کے ابّو،سلمان کے ابّووغیرہ کہہ کر پکارے ،اگر ابھی اَولاد پیدا نہ ہوئی ہو تو فُلاں کے چچّا ،فُلاں کے ماموں کہہ کر بھی ترکیب بنائی جا سکتی ہے، اسی طرح شوہر بھی اپنے بیوی کو سلمان کی امّی وغیرہ کہہ کر پکارے تو زیادہ مُناسِب ہے، اَلْغَرَض جو اَنداز زیادہ مُہذَّب ہو وہ اختیار کیا جائے۔ ’’بہار شریعت“ جلد3 صفحہ 657 پر ہے: عورت کو یہ مکروہ ہے کہ شوہر کو نام لے کر پکارے۔ (درمختار،ج9 ، ص690) بعض جاہلوں میں یہ مشہور ہے کہ عورت اگر شوہر کا نام لے لے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے، یہ غلط ہے۔شاید اسے اس لئے گڑھا ہو کہ اس ڈر سے کہ طلاق ہو جائے گی شوہر کا نام نہ لے گی۔(بہارِ شریعت،ج3، ص657)
(7)خدائے رحمن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالیشان ہے:ترجمۂ کنزالایمان: مسلمان مسلمان بھائی ہیں۔(پ26،الحجرات:10) میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا مسلمان چاہے اس سے ہماری کوئی واقفیت یا رشتے داری نہ ہو لیکن مسلمان ہونے کے باعِث وہ ہمارا اسلامی بھائی ہے لہٰذا اسے پُکارتے اور اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے نام کے ساتھ ’’بھائی‘‘ کہنا مُناسِب ہے جیسا کہ اَحمد رضا بھائی،حَسَن بھائی وغیرہ۔اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں یہی طریقۂ کاررائج ہے۔ناواقف مسلمان کو بھائی کہنا صرف نوکِ زبان تک ہی محدودنہیں ہونا چاہیے بلکہ کوشش کرکے اپنے دل میں بھی اس کے لئے بھائی چارے کے جذبات اُجاگَر کرنا اور اس کی خوشی وغم کو اپنی خوشی وغم سمجھنا چاہیے۔
(8)ہونٹوں سے’’شِش شی‘‘ کی آواز نکال کر،’’اوئے، اَبے‘‘ کہہ کر کسی کو بُلانا یا مُتَوَجِّہ کرنا اچّھا انداز نہیں۔
جس کو پکارا گیا وہ ’’لَبَّیْک‘‘(یعنی میں حاضر ہوں)کہے۔ دعوت ِ اسلامی کے مَدَنی ماحول میں اکثر کسی کی پکار پر جواباً ’’ لَبَّیْک‘‘ کہا جاتا ہے جو کہ سُننے میں بہت بھلا معلوم ہوتا ہے،اِ س سے مسلمان کے دل میں خوشی داخل ہو سکتی ہے ۔ نیز صحابۂ کرام کا شہنشاہِ خَیْرُ الاَنام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے یاد فرمانے (یعنی بلانے ) پر’’لَبَّیک ‘‘کے ساتھ جواب دینا اَحادیث میں مذکورہے ، اس کے علاوہ ایک ولیُّ اللّٰہ کے فعل سے بھی اس کا ثُبوت ملتا ہے۔ چُنانچِہ حضرت سیّدنا عبدالَمَلِک مَیْمُونی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی کروڑوں حَنبلیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ سیِّدُنا امام اَحمد بن حَنْبَل رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہ کے بارے میں فرماتے ہیں: اکثر جب میں مسئلہ پوچھنے کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہ کو اپنی طرف متوجّہ کرتا تو’’ لَبَّیک‘‘ فرماتے۔ (مناقب الامام احمد بن حنبل لابن جوزی ، ص298 )مسنون دُعاؤں کی مشہور کتاب’’حِصْنِ حَصِیْن‘‘ میں ہے:جب کوئی شخص آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کو پکارتا تو اُس کوجواب میں”لبَّیک“ارشاد فرماتے۔(حصنِ حصین، ص104)
Comments