رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وفود کے ساتھ انداز(قسط:02)

انداز میرے حضور کے

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وفود کے ساتھ انداز (قسط:02)

*مولانا شہروز علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

پچھلی قسط میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے چند وفود کے احوال آپ نے پڑھے، اس قسط میں بھی مزید چند وفود کے ساتھ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مختلف انداز ملاحظہ کیجئے!

خوش اخلاقی سے ملنا:

غزوۂ خندق کے سال قبیلۂ اشجع کا ایک وفد صلح کا معاہدہ  کرنے  کے لئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ لوگ مدینہ آکر محلہ ”شعبِ سلع“ میں قیام پذیر ہوئے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو جب ان کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ خود ان کے پاس تشریف لے گئے، کافی دیر ان سے  گفتگو فرمانے  کے  بعد   صحابَۂ کرام رِضوانُ اللہِ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ مہمانوں کی کھجوروں سے تواضع کرو۔ وہ لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے تو آپ نے انہیں بڑی نرمی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔انہوں نے جواب دیا:ہم اسلام قبول کرنے نہیں آئے بلکہ آپ سے امن اور صلح کا معاہدہ کرنے آئے ہیں۔

رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : جو تم کہتے ہو وہ ہمیں منظور ہے۔ چنانچہ صلح اور امن کا ایک معاہدہ لکھا گیا جس کو فریقین نے منظور کر لیا۔ اس دوران اہلِ وفد حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اخلاقِ کریمانہ سے اتنے متأثر ہو چکے تھے کہ معاہدۂ صلح مَعرضِ تحریر میں آنے کے فوراً بعد وہ سب پکار اُٹھے: اے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ کا دین برحق ہے۔ ([1])

وفد کا استقبال کرنااور انہیں خوشخبری سنانا:

سن نو ہجری میں قبیلۂ ”عُذْرَہ“کے افراد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ حضور نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے عرض کی:ہم بنی عذرہ ہیں قصی کے (ماں کی طرف سے) بھائی ہیں ہم نے ”قصی“ کے  مددگار بن کر خزاعہ اور بنی بکر کو مکہ سے نکالا تھا اس لئے ہم آپ کے قرابت دار بھی ہیں۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان کے جواب میں فرمایا: مَرحَباً بِکُم  وَ اَہلاً۔ پھر انہیں غیب کی خبر دیتے ہوئے بشارت دی کہ اِن شآءَ اللہ جلد ہی ان کا علاقہ ہرقل کے چنگل سے آزاد ہو جائے گا۔

اہلِ وفد نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے چند سوالات پوچھے۔ تسلی بخش جواب ملنے پر سب حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے انہیں نصیحت فرمائی کہ (1) کاہنوں سے سوال نہ پوچھا کرو اور (2) جو قربانیاں تم اب دیتے ہو وہ سب منسوخ ہیں، صرف عیدُ الاضحٰی کی قربانی باقی رہ گئی ہے اگر استطاعت ہو تو ضرورقربانی کیا کرو۔یہ لوگ چند روز بطورِ مہمان حضور کے پاس ٹھہرے اور پھر انعام و اکرام سے مشرف ہو کر رخصت ہوئے۔([2])

وفود کو تحفوں سے نوازنا:

بنو حارث بن کعب نجران کا ایک نہایت معزز اور جنگجو قبیلہ تھا۔ سارے عرب میں شہرت تھی کہ اس نے کبھی دشمن سے شکست نہیں کھائی۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت خالد  بن ولید رضی اللہُ عنہ کو تبلیغِ اسلام کے لئے اس قبیلہ میں بھیجا تھا۔ ان کی کوشش سے یہ قبیلہ مشرف بہ اسلام ہو گیا اور ان کا ایک وفد حضرت خالد رضی اللہُ عنہ کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے پوچھا کہ زمانۂ جاہلیت میں جو تم سے لڑا وہ ہمیشہ مغلوب رہا اس کا کیا سبب ہے؟ انہوں نے عرض کی:یارسولَ اللہ!اس کے تین سبب تھے: (1) ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے۔(2) ہم خود کسی پر چڑھائی نہیں کرتے تھے۔ (3)جب کوئی ہم پر لڑائی مسلط کر دیتا  توہم میدانِ جنگ میں سیسہ  پلائی  دیوار بن جاتے اور کبھی منتشر نہیں ہوتے تھے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :بے شک تم سچ کہتے ہو، جو فوج یا جماعت ان اصولوں پر لڑے گی وہ ہمیشہ غالب رہے گی۔

جب یہ لوگ رخصت ہونے لگے تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ان کے سردار قیس بن حصین رضی اللہُ عنہ اور دیگر اراکینِ وفد کو انعامات سے نوازا۔ ([3])

نصیحت فرمانا:

شعبان 10ہجری میں خولان کےمسلمان بارگاہ ِنبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہم خدا اور رسول کے اطاعت گزار ہیں اور طویل سفر کر کے محض آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے ہیں۔رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَنْ زَارَنِي بِالْمَدِینَةِ کَانَ فِي جَوَارِي یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یعنی جس نے مدینہ آکر میری زیارت کی وہ قیامت کے دن میرا ہمسایہ ہو گا۔

اس قبیلہ کے لوگ” عم انس“ نامی ایک بت کی پرستش کیا کرتے تھے۔ حضور نے پوچھا :تم نے عم انس کا کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا :یا رسولَ اللہ ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں اور اس کی پرستش ترک کر دی ہے البتہ چند بوڑھے لوگ ابھی تک اس کی پوجا کرتے ہیں ۔ پھر انہوں نے جاہلیت کے زمانے کے چند واقعات سنائے کہ وہ کس طرح عم انس پر چڑھاوے چڑھاتے تھے اور خود بھوکےرہ کر ہر چیز سے اس کا حصہ نکالتے تھے۔حضور نے ان لوگوں کو فرائضِ دین سکھائے اور بطورِ خاص یہ نصیحتیں فرمائیں:

1. عہد کو پورا کرو۔

2. امانت میں خیانت نہ کرو۔

3. پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو۔

4. کسی پر ظلم نہ کرو کیونکہ ظلم قیامت کے دن ظالم کے لیے اندھیری رات ثابت ہو گا۔([4])

درسِ سیرت:

محترم قارئین! حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ کے ان روشن گوشوں سے ہمیں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ آنے والے مہمانوں، دوستوں اور عزیزوں کا خوش دلی سے استقبال کریں۔ باہم خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ موقع کی مناسبت سے  سامنے والے کو نصیحت کریں۔ اچھے مشورے دیں۔ وقتِ رخصت  آسانی ہو تو  تحائف بھی دیں۔

 (بقیہ اگلے شمارے میں۔۔۔ اِن شآءَ اللہ)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ، شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])طبقات ابن سعد، 1/ 233 مفہوماً

([2])شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ،5/215

([3])طبقات ابن سعد،1/256،شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ ،5/173 ملخصاً

([4])شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ،5/218


Share