نواسۂ رسول حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ

کم سِن صحابہ کرام

نواسۂ رسول حضرت سَیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ

*مولانا اویس یامین عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

سردارِ امّت، نواسۂ رسول، شہزادۂ  مولائے علی، جگرگوشہ بی بی فاطمۃ الزھراء  سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ 15رمضانُ المبارک 3 ہجری کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے۔([1]) آپ کو بھی کم سِنی میں شرفِ صحابیت  ملا۔

بعدِ ولادت کرم نوازی:جب امام حسن رضی اللہُ عنہ پیدا ہوئے  تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے کان میں اذان دی۔([2])گھٹی دی، آپ کا نام ”حسن“ رکھا اور آپ کو اپنا بیٹا فرمایا۔([3]) دو دنبوں کے ذریعے آپ  رضی اللہُ عنہ کا عقیقہ کیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کو آپ کا سَر مونڈنے اور سَر کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔([4])

حضور نے بوسہ لیا:ایک موقع پر  حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امام حسن رضی اللہُ عنہ کا بوسہ لیا، اس وقت آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس اَقرع بن حابس تمیمی رضی اللہُ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، انہوں  نے کہا کہ میرے 10بیٹے ہیں، میں نے کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔([5])

کندھے پر سوار فرمایا:حضرت بَرَّاء بن عازِب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ نے امام حسن رضی اللہُ عنہ کو اپنے کندھے پر سوار فرمایا ہوا تھا اور اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے تھے: اے اللہ! میں اس (یعنی امام حسن رضی اللہُ عنہ) سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے محبت فرما۔([6])

حضور کی شفقت و محبت:حضرت ابوبکرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں نماز پڑھا رہے تھے، جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سجدے میں گئے تو امام حسن رضی اللہُ عنہ جو ابھی چھوٹے بچے تھے آئے اور حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک پیٹھ اور گردن شریف پر بیٹھ گئے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس طرح آہستہ سے سجدے سے سَر مبارک اُٹھایا کہ امام حسن رضی اللہُ عنہ اُتر گئے، (نماز مکمل ہونے کے بعد) صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی: یَارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! امام حسن سے آپ اس انداز سے پیش آتے ہیں کہ کسی اور سے ایسا سلوک نہیں فرماتے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: یہ دنیا میں میرا پھول ہے۔([7])

فضائل و مناقب: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہُ عنہ کو اپنی گود میں بٹھایا، سونگھا، اپنے سینے سے لگایا، اپنی مبارک چادر میں لیا اور آپ کو جنتی جوانوں کا سردار فرمایا۔([8])

٭حضرت ابوبکرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم منبر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور امامِ حسن رضی اللہُ عنہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے برابر میں بیٹھے ہوئے ہیں، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی امام حسن کی طرف دیکھتے، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا: میرا یہ بیٹا سیّد (یعنی سردار) ہے، اللہ پاک اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح فرمائے گا۔([9])

*رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کے عرض کرنے پر امامِ حسن رضی اللہُ عنہ کو اپنی وراثت سے ہیبت و سرداری عطا فرمائی۔([10])

امام حسن مجتبیٰ کی بچپن کی مرویات: آپ رضی اللہُ عنہ سے احادیثِ مبارکہ بھی مروی ہیں۔([11])

چنانچہ ایک روایت میں آپ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے یہ ایک بات یاد کی ہے کہ جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اُسے چھوڑ دو اور جو شک میں نہ ڈالے اُسے کر لو، کیونکہ سچ اطمینان ہے اور جھوٹ تَردُّد ہے۔([12])

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یعنی جو کام یا کلام تمہارے دل میں کھٹکے کہ نہ معلوم حرام ہے یا حلال اسے چھوڑ دو اور جس پر دل گواہی دے کہ یہ ٹھیک ہے اسے اختیار کرو مگر یہ اُن حضرات کے لئے ہے جو حضرت (امام) حسن (رضی اللہُ عنہ) جیسی قوتِ قُدسیہ و علمِ لَدُنِّی والے ہوں جن کا فیصلۂ قلب کتاب و سنّت کے مطابق ہو، عام لوگ یا جو نفسانی و شیطانی وہمیات میں پھنسے ہوں ان کے لئے یہ قاعدہ نہیں۔ مزید فرماتے ہیں:مؤمنِ کامل کا دل سچے کام و سچے کلام سے مطمئن ہوتا ہے اور مشکوک اشیاء سے قدرتی طور پر متردد ہوتا ہے۔([13])

وصالِ خالقِ حقیقی: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہری کے وقت آپ رضی اللہُ عنہ 7سال 6ماہ کے تھے، آپ رضی اللہُ عنہ نے 47سال کی عمر میں 5ربیعُ الاوّل50ھ کو وفات پائی اور آپ رضی اللہُ عنہ کی تدفین جنتُ البقیع میں کی گئی۔([14])

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہُ عنہ کی سیرت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے مکتبۃُ المدینہ کا 28صفحات کا رسالہ ”امام حسن کی 30 حکایات“ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.netسے ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغُ التحصیل جامعۃُ المدینہ، شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])الطبقات الکبیر لابن سعد، 6/352

([2])معجم کبیر، 1/313، حدیث:926

([3])مسند بزار، 2/315، حدیث:743-مستدرک، 4/154، 155، حدیث: 4826، 4829

([4])نسائی، ص688، حدیث: 4225-ترمذی، 3/175، حدیث: 1524

([5])بخاری، 4/100، حدیث: 5997

([6])بخاری، 2/547، حدیث: 3749-مسلم، ص1013، حدیث: 6256

([7])مسند بزار، 9/111، حدیث: 3657

([8])مسند احمد، 10/184، حدیث: 26602- ترمذی، 5/426، 428، 433، حدیث: 3793، 3797، 3812

([9])بخاری، 2/214، حدیث: 2704

([10])معجم کبیر، 22/423، حدیث: 1041

([11])تھذیب الاسمآء واللغات، 1/162

([12])ترمذی، 2/232، حدیث:2526

([13])مراٰۃ المناجیح، 4/234، 235

([14])صفوۃ الصفوۃ، 1/386


Share

Articles

Comments


Security Code