فلسطین کی تاریخی و مذہبی حیثیت (قسط:02)

تاریخ کے اوراق

فلسطین (Palestine) کی تاریخی و مذہبی حیثیت(قسط:02)

*مولانا آصف اقبال عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

 (5)نابُلُس:یہ آبادی کے لحاظ سے فلسطین کا سب سے بڑا شہر اور ایک اہم مقام ہے، یہ فلسطینی یونیورسٹیوں کا بڑا ہیڈکوارٹر ہے۔یہ شمالی مغربی کنارے کا مرکز ہے،اس کے اور بھی نام ہیں جیسے جبل النار، دِمَشْق صغریٰ، علما کا مسکن اور فلسطین کی بے تاج ملکہ۔

نابلس عہدِ فاروقِ اعظم میں فتح ہوا۔ قَیْسَارِیہ فتح ہونے کی خبر سن کر اطراف کے شہر و دیہات رَمْلہ، عکاء، عَسْقَلان، غَزّہ، نابُلُس، طَبَرِیَّہ، بیروت، جَبَلَہ اور لَاذِقِیّہ وغیرہ کے لوگ بھی سیِّدُنا عمر و بن عاص رضی اللہُ عنہ کے پاس آئے اور ادائے جزیہ کی شرط پر صلح کرلی یوں یہ تمام علاقے بھی ایک ساتھ فتح ہوگئے۔ ([1])

 نابلس کی ایک بستی کا نام سَیْلُون ہے، جہاں مسجد سکینہ ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام تھی، یہیں سے حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائی انہیں لے کر گئے اور کنوئیں میں ڈالا، کنواں سِنْجِل نامی بستی کے پاس تھا، لوگوں نے اس کنوئیں کو زیارت گاہ بنالیا۔([2])

اکثر اہلِ علم کے مطابق آسمان سے مائدہ یعنی دسترخوان یہیں نازل ہوا تھا۔([3])نابلس بڑا مردم خیز علاقہ رہا ہے، یہاں سے عالَمِ اسلام کی بڑی بڑی شخصیات کا ظہور ہوا جیسے عارف باللہ امام عبدالغنی نابلسی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ جن کے علمی وتحقیقی کارناموں کی دنیا معترف ہے۔

(6)رملہ: رملہ فلسطین کا ایک شاندار قصبہ ہے، اپنی بناوٹ کے لحاظ سے خوبصورت ہے، ماحول وفضا خوشگوار ہے، یہ کئی چھوٹے چھوٹے دیہاتوں پر مشتمل ہے، ایک اچھا تجارتی شہر ہے،اس کے گھر کشادہ، مسجدیں خوبصورت اور گلیاں چوڑی ووسیع ہیں اور یہ پہاڑوں اور سمندر کے قریب واقع ہے۔([4]) رملہ کا شمار قدیم شہروں میں ہوتا ہے، رملہ بھی عہدِ فاروقِ اعظم میں فتح ہوا اور حضرت عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ کے ہاتھ سےفتح ہوا۔

 ابن رسلان کے نام سے مشہور بزرگ حضرت احمد بن حسین بن حسن شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ جن کے مزار کے پاس دعا قبول ہوتی ہے([5])آپ کی ولادت بھی رملہ میں ہوئی۔([6]) اپنے زمانے کے شیخ حنفیہ، صاحبِ فتاویٰ خیریہ (اَلفَتَاوٰى الْخَيْريۃ لِنَفْع الْبَرِيۃ) امام، فقیہ، محدث،مفسرعلامہ خیرُ الدین احمد بن علی حنفی رملی (وفات: 1081ھ)  بھی اسی شہرسے تعلق رکھتے تھے۔([7])

(7)عسقلان: فلسطین کے اطراف میں شام کا مشہور ساحلی شہرجسے حسن وخوبی کی وجہ سے ”عروس الشام یعنی شام کی دلہن“ کہا جاتا تھا، اب یہ فلسطین کا ایک رہائشی علاقہ ہے، یہ شہر حضرت امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہُ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت امیرمعاویہ رضی اللہُ عنہ کے ہاتھوں فتح ہوا، اس کے بعد548 ہجری میں فرنگیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔([8]) اس شہر کی فضیلت میں ایک حدیث پاک بھی آئی ہے، رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عسقلان دو دولہنوں میں سے ایک ہے، روزِ قیامت اس میں سے70 ہزار ایسے اٹھیں گے جن پر حساب نہیں۔([9])کثیر تعداد میں حضرات صحابۂ کرام اور تابعین عظام رضی اللہُ عنہم یہاں تشریف لائے اور بہت سارے محدثین کرام نے یہاں درسِ حدیث دیا۔ حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرَّحمہ نے 583 ہجری میں اسے صلیبیوں کے قبضے سے آزاد کروایا۔([10])

بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں۔۔۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغُ التحصیل جامعۃُ المدینہ، شعبہ تراجم، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])فتوح الشام، 2 / 32

([2])آثار البلاد واخبارالعباد، ص205

([3])معجم البلدان،3/107

([4])احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم،ص164ماخوذاً

([5])شرح زرقانی علی المواہب،9/66

([6])معجم المؤلفین،1/128

([7])معجم المطبوعات العربیۃ والمعربۃ،2/951

([8])آثار البلاد واخبار العباد، ص 222

([9])مسند احمد،21/65، حدیث: 13356

([10])معجم البلدان،3/327


Share

Articles

Comments


Security Code