درسِ کتابِ زندگی(چار باتیں)

درسِ کتاب زندگی

(1)جلدی جان چھڑا لیجئے

(2)Saving مگر کس چیز کی؟

(3)بچھڑنے کو بھی سلیقہ چاہئے

(4)فیصلہ آپ کا اور غلطی کسی کی؟

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

 (1) غلطی مان کر جلدی جان چھڑا لیجئے

غلطی کس سے نہیں ہوتی؟مشہور ہے: ’’انسان خطا اور نسیان کامرکب ہے‘‘ جب غلطی ہوجائے تو معافی مانگ لینی چاہئے، اس سے ہماری جان بھی جلدی چھوٹ جائے گی اورہم مزید شرمندگی سے بھی بچ جائیں گے، اِن شآءَ اللہ۔لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ غلطی ہوجائے تو اپنی غلطی جلدی مانتے نہیں ہیں بلکہ خود کو درست قرار دینے کے لئے دلائل دینا شروع کر دیتے ہیں کہ جناب ہماری تو غلطی ہی نہیں تھی۔ بالآخر انہیں اپنی غلطی تسلیم کرکے اس پر معذرت کرنی پڑتی ہے۔ اگر ایسے لوگ اسی وقت Sorry کر لیں جب غلطی کی نشاندہی ہو تو بات چند سیکنڈز میں ختم ہو سکتی ہے۔اِن شآءَ اللہ

*   *   *   *   *   *

(2)Saving مگر کس چیز کی؟

Saving کا لفظ آپ نے بہت مرتبہ سنا ہوگا اور لوگ ایک دوسرے سے بچت کے طریقے پوچھتے ہیں پھر ان طریقوں کو استعمال بھی کرتے ہیں اور بعض تو ایسے ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں کہ سن کرانسان حیران رہ جاتا ہے۔ مگر بچت کا تصور صرف مال، رقم اور روپے پیسے کے ساتھ سمجھا جاتا ہے کہ بچت کالفظ جب بھی آئے گا لوگوں کے ذہن میں رقم اور روپے پیسے کی بچت کا خیال آئے گاکہ بچت کرنے کے بعد جو رقم ملےگی وہ ہماری ضروریات میں استعمال ہوگی۔ مال کی بچت اگر شرعی حدود میں رہے تو اس میں حرج نہیں ہے لیکن ایک بچت اور بھی ہے جس طرف ہمیں توجہ کرنے کی ضرورت ہے،وہ ہے وقت کی بچت !یہ حقیقت ہے کہ وقت کو ایک طرف اور روپے پیسے کو دوسری طرف رکھ لیجئے تو سمجھ دار شخص یقیناً یہی جواب دے گا کہ وقت زیادہ قیمتی ہے۔ ایک طرف ہمارا رویہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارا مال چھین کر لے جائے،ہماری جیب کٹ جائے یا ڈکیتی ہو جائے تو ہمیں بڑا صدمہ اورافسوس ہوتا ہے اور کئی دن تک ہم سوچتے رہتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ اور دوسری طرف اگر ہمارا وقت کوئی چھین کر لے جائے تو ہمیں کوئی افسوس نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں شعور ہی نہیں کہ لُوٹنے والا ہماری کون سی دولت چھین کر لے گیا!

اب رہایہ سوال کہ کوئی ہمارا وقت کیسے لُوٹ کر لے گیا؟تو غور کیجئے کہ ایک فالتو شخص فضول میں ایک یا دویا تین گھنٹے ضائع کر کے چلا گیا،یہ وقت لُوٹنا ہی تو ہے۔ہماری دماغی حالت دیکھئے کہ وقت لُوٹنے والا دوبارہ ملے گا تو ہم دوستی کا دَم بھی بھریں گے اورایک مرتبہ پھر سے اس سے ملنے اور لُٹنے کے لئے تیار رہیں گے اور دوسری جانب جو رقم چھین کرلے جائے وہ ہمارا دشمن نمبر1!اگر وہ ہمیں دوبارہ مل جائے تو ہم جلدی سے اس کا پیچھا کریں گے بلکہ دیکھتے ہی شور مچا دیں گے کہ یہی شخص ہے جس نے مجھے فلاں جگہ لوٹا تھا، یہی شخص ہے جو میرا مال لے کر بھاگا تھا،پکڑو اس کو !اس سے میرا مال وصول کرو۔ اور جو وقت چھین کر لے گیا اس کو ہم اپنا دوست قرار دے رہے ہیں حالانکہ وقت ایسی انمول دولت ہے جس کو خرچ کرکے ہم مال سمیت دنیا کی ہزاروں نعمتیں حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں مال کی سیونگ سے زیادہ وقت کی سیونگ کرنی چاہئے۔

*   *   *   *   *   *

(3)بچھڑنے کو بھی سلیقہ چاہئے

ہم اپنی زندگی میں کسی آفس یادینی جامعہ یااسکول کالج یا کسی فیکٹری یا دکان وغیرہ میں ملازمت کرتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ہمیں وہ جاب مجبوراًچھوڑنی پڑتی ہے یا ہمیں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے،اس طرح بعض اوقات کسی سے ہمارے گھریلو تعلقات بن جاتے ہیں پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ تعلقات ختم ہو جاتے ہیں جس سے ہمیں خوشی نہیں ہوتی۔ہمیں اس سے جدا ہونا پڑتا ہے لیکن اس جدائی کو ہم بھیانک طور پر یادگار بناتے ہیں، وہ یوں کہ الوداعی ملاقات میں اس قسم کے  ناراضی والے جملے کہتے ہیں:*میں پتے کھالوں گا کبھی تمہارے پاس نوکری کے لئے نہیں آؤں گا *میں تمہارے آفس پر تھوکتا بھی نہیں ہوں *تم نے میری قدر نہیں پہچانی میں کبھی تمہیں اپنی شکل نہیں دکھاؤں گا *تم اس لائق ہی نہیں ہو کہ تمہارے پاس کوئی ٹیلنٹ والا شخص کام کرے * مجھے بیسیوں نوکریاں مل جائیں گی لیکن تمہیں میرے جیسا ماہر آدمی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔وغیرہ

کوئی بھی سمجھدار شخص اس انداز کو اچھا نہیں کہے گا، لیکن زندگی میں Ups and Downs آتے رہتے ہیں،کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملازمت کی تلاش کرنے والا انجانے میں اسی کے پاس جاپہنچتا ہے جس کو بڑی غصیلی باتیں کرکے رخصت ہوا تھا۔اس وقت کتنی ندامت اور شرمندگی ہوتی ہے یہ تو وہی بتا سکتا ہے جس پر یہ گزری ہو،خاص کر اس وقت جب اس کے جملوں کے تیروں کا نشانہ بننے والا اسے ماضی   کے طنزیہ انداز میں یاد دلادے۔ اس سچویشن سے بچنے کے لئے یہ یاد رکھئے کہ آج بچھڑنے والے کل مل بھی سکتے ہیں،کسی نے سوشل میڈیا پربڑی پیاری حقیقت بیان کی کہ مچھلی کانٹے میں اسی وقت پھنستی ہے جب وہ اپنامنہ کھولتی ہے، انسان کو بھی چاہئے کہ سوچ سمجھ کر اپنا منہ کھولے تاکہ سلامت رہے۔

*   *   *   *   *   *

(4)فیصلہ آپ کا اور غلطی کسی اور کی؟

کام کوئی بھی ہو اس کے لئے کسی سے مشورہ کرلینا بہت مفید ہے۔جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہوتا ہے کہ اپنے معلومات وتجربات کی روشنی میں بہترین رائے دے۔پھر اگر کام بگڑ جائے یا کوئی نقصان  ہوجائے تو مشورہ قبول کر کے کام کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے والے کو چاہئے کہ اسے نصیب کا لکھا سمجھ کر صبرکرےلیکن کئی لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگرفیصلہ  فائدہ مند ثابت ہوا تو کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں اور اگر نقصان ہوجائے تو غلطی کا ہار مشورہ دینے والے کے گلے میں ڈال دیتے ہیں اور یہ سناسنا کر اس کے کان پکا دیتے ہیں کہ تمہارے کہنے پر چلنے کی وجہ سے مجھے نقصان ہوگیا،گویامیٹھا میرا کڑوا تیرا۔اس رویّے کا اسے ڈبل نقصان ہوتا ہے وہ یوں کہ ایک تو اس کا کام بگڑ گیا اور دوسرا اسے آئندہ کوئی مشورہ دینے کو تیار نہیں ہوگا کہ اس کا نقصان ہوگیا تو یہ اس کا ذمہ دار مجھے ٹھہرائے گا۔

لہٰذا ! اس قسم کا رویہ رکھنے والے کو یاد رکھناچاہئے کہ اس نے تو مشورہ دیا، کام کرنے یا نہ کرنے پھراس انداز میں کرنے کافیصلہ آپ کا ہے،اس کے بعد نتائج اچھےہوں تو وہ بھی آپ کے اور اگر برے نتائج ہوں تو وہ بھی آپ ہی کو فیس کرنے ہوں گے ۔آپ اپنے رویے کو جلدی درست کرلیجئے۔

اللہ پاک ہمیں سمجھ داری نصیب کرے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ (Islamic Research Center) کراچی


Share