پیرانِ عظام کی دینی خدمات

تذکرۂ صالحین

پیرانِ عظام کی دینی خدمات

The Religious services rendered by the Great Pious Predecessors

*مولانا سیّد عمران اختر عطّاری مدنی

ما ہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2022

اسلامی تاریخ میں عُلما و صوفیا نے اپنی نظر و گفتار اور کردار سے لوگوں کے دل مسخر کرکے انہیں اخلاقیات و آداب ِ زندگی سے روشناس کروایا ، جینے کا اسلامی طریقہ سکھایا ، لاکھوں لاکھ غیرمسلموں کا قبولِ اسلام انہی بزرگوں کی کوششوں کا ثمرہ ہے ، مگر معاشرے کی ستم ظریفی ہے کہ ایک تعداد ان ہستیوں کے دین کی خاطر جان گھلانے سے بےخبر ہونے کی بنیاد پر اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ پیروں اور سجادہ نشینوں نے خانقاہوں میں عیش کی زندگی گزاری ہے بلکہ بعض لوگ خانقاہوں اور آستانوں کو لوگوں کا پیسہ بٹورنے کی آماجگاہ سمجھتے ہیں گو کہ ان کے اس طرزِ فکر کی کچھ نہ کچھ وجہ ڈھونگ رچانے والے جعلسازوں کا کردار بھی ہے مگر پیرانِ صادق کا معاملہ اس کے برعکس ہے ، پیرانِ عظام نے خلقِ خدا کے دل یادِ خدا سے بسائے ، علم کے دئیے جلائے ، علمی مَراکِز قائم کئے ، وعظ و نصیحت ، درس و تدریس اور تحریر و تصنیف کے ذریعے تبلیغِ دین کی شمعیں روشن کیں۔ آئیے چند پیرانِ عظام کے حالات پڑھ کر تمام سچے پیروں کی شاندار مِلّی و مذہبی خدمات کا اندازہ کیجئے اور اعتراف کا ذہن بنائیے !

حضرت داتا گنج بخش رحمۃُ اللہ علیہ  ( وفات : 465ھ )  آپ نہایت سادہ لباس پہنتے جس سے نمود و نمائش نہیں بلکہ تن پوشی مقصود ہوتی ، عالم ِدین بننے کے بعد بہت سے مقامات کا سفر کیا اور بڑے بڑے صوفیا سے فیض پایا ، صرف خراسان ہی کے تین سو مشائخ سے اسرارِ معرفت سیکھے ، راہِ معرفت میں فقر و فاقہ اور مشکلیں برداشت کیں ،[1]  بالآخر لاہور آکر مقیم ہوئے ، قیام گاہ کے قریب ہی مسجد تعمیر کی جس میں مالی و جسمانی بھرپور حصہ لیا ، یہ لاہور کی پہلی مسجد تھی ، وصال تک 30 سال سے زائد عرصہ یہیں گزارا ،[2] آپ کی سیرت بتاتی ہے کہ آپ اپنی زندگی لوگوں کے بھلے کے لئے جیتے رہے ، دن میں تدریس اور رات کو منزلِ حق کے متلاشیوں کی تربیت کرتے ، درِ داتا سے ہزاروں جاہلوں کو نورِ علم ، کافروں کو نورِ اسلام اور بھٹکے ہوؤں کو ہدایت کا راستہ ملا۔  [3]

پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ  ( وفات : 561ھ )  حضور غوثِ پاک رحمۃُ اللہ علیہ نے جب علمِ دین سے فراغت حاصل کرلی تودرس و تدریس کی مَسْنَد اور اِفتاء کے منصب پر جلوہ افروز ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو وعظ و نصیحت اور علم و عمل کی اشاعت کرنے میں مصروف ہوگئے ، چُنانچہ دُنیا بھر سے عُلما و صُلحا آپ کی بارگاہ میں علم سیکھنے کے لئے حاضر ہوتے۔  [4]آپ رحمۃُ اللہ علیہ 13علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔ مدرسے میں دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کو تفسیر ، حدیث ، فقہ ، کلام ، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قراٰنِ مجید پڑھاتے تھے۔[5]  آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے 521ھ سے 561ھ تک چالیس سال مخلوق کو وعظ و نصیحت فرمائی۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ بیان فرماتے تو لوگ آپ کے کلام مبارک کو بغور سنتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں : میرے ہاتھ پر پانچ سو سے زائد یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکو ، چور ، فساق و فجار ، فسادی اور بدعتی لوگوں نے توبہ کی۔[6]

حضرت بہاؤ الدین زکریا سہروردی ملتانی رحمۃُ اللہ علیہ  ( وفات : 661ھ )   12سال کی عمر میں قراءتِ سبعہ کے ساتھ حفظِ قراٰن اور ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی ، اسی عمر میں والدِ محترم کا انتقال ہوا تو انہیں دستار پہناکر خانقاہ کی مَسْنَد پر بٹھا دیا گیا مگر چچا جان کی اجازت سے خانقاہ چھوڑ کر مزید علمِ دین کے حصول کےلئے خراسان ، بخارا ، عراق اور حجازِ مقدس وغیرہ کا سفر کیا ، 444 سے زائد عُلما کی شاگردی اور 1380 مشائخ و صوفیا کی زیارت و ملاقات کرکے علم کے مزید موتی سمیٹے ، سلسلہ سہروردیہ کے عظیم بزرگ شیخ شہابُ الدین سہروردی رحمۃُ اللہ علیہ سے خلافت پائی ، ملتان کو مستقل مسکن بناکر عظیم خانقاہ ، وسیع لنگر خانہ ، عظیمُ الشان اجتماع گاہ ، عالیشان محل سراؤں اور مساجد کی تعمیرات کے علاوہ ایک بہت بڑا جامعہ قائم فرمایا جسے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کہنا غلط نہ ہوگا جہاں دیگر دینی علوم کے علاوہ ادب ، انشا ، فلسلفہ ، منطق ، ریاضی اور ہیئت  ( Astronomy )  وغیرہ کی مفت تعلیم دیجاتی بلکہ کتابوں سمیت ہزاروں طلبہ کی تعلیمی اور رہائشی ضروریات کے تمام اخراجات حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ہی برداشت کرتے ، چونکہ والدین کی وراثت سے خاصا مالی خزانہ اور وسیع زمینیں پائی تھیں اور زراعت و تجارت کو پیشہ بنایا تھا ، کئی ملکوں میں آپ کا کاروبار پھیلا ہوا تھا ، مگر پھر بھی زندگی سادہ گزاری ، غربا کے ساتھ مل کر لنگر کا کھانا کھاتے اور زراعت و تجارت سے حاصل لاکھوں لاکھ آمدنی طلبہ و خدمتِ دین پر خرچ کرتے۔[7]

حضرت بابا فریدالدین گنجِ شکر رحمۃُ اللہ علیہ ( وفات : 663ھ )  حضرت بابا فریدالدین گنج شکر  رحمۃُ اللہ علیہ اپنے خُلفا اور مریدین کو وقتاً فوقتاً اِتِّباعِ شریعت کی تلقین فرمایاکرتے تھے کہ اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو مَت ستانا ، نہ کسی پر طَعن و تشنیع کرنا ، اپنے ظاہر کو محفوظ رکھنا ، آنکھ اور زبان کی حفاظت کرنا اور انہیں رضائے الٰہی میں مصروف رکھنا ، یادِ الٰہی کو دل میں بسائے رکھنا ، ذکر و تلاوت سے ہمیشہ اپنی زبان تَر رکھنا اور شیطانی وَسوَسوں سے دل کو بچائے رکھنا۔[8]ایک مرتبہ ارشاد فرمایا : جو آدمی چار چیزوں سے بھاگتا ہے اس سے چار چیزیں دور کردی جاتی ہیں : جو زکوٰۃ نہیں دیتا اسے مال سے محروم کر دیا جاتا ہے ، جو صدقہ اور قربانی نہیں کرتا اس سے آرام چھین لیاجاتاہے ، جونمازنہیں پڑھتا مرتے وقت اس کا ایمان چھین لیا جاتا ہے اور جو دُعا نہیں کرتا اللہ پاک اس کی دُعا قبول نہیں فرماتا۔[9]

حضرت لعل شہباز قلندر سید محمد عثمان مروَندی رحمۃُ اللہ علیہ  ( وفات : 673ھ )  آپ نے سات سال کی عمر میں قراٰ ن ِمجید حفظ کرنے کے بعد چند سالوں میں ہی دینی علوم اور فارسی و عربی زبانوں پر دسترس حاصل کی ، 18 سال کی عمر میں والد اور دوسال بعد والدہ چل بسیں جس کے بعد اپنے قصبے مروَند  ( واقع آذربائیجان )  کو خیر باد کہہ کر مزید علم سیکھنے اور پھیلانے کیلئے راہِ خدا کے ایسے مسافر بنے کہ زندگی تقریباً سفر میں ہی گزری ، شاید یہی وجہ ہے کہ آپ ماہرِ لسانیات  ( کئی زبانوں پر عبور رکھنے والے )  بھی مشہور ہیں ، سیہون شریف میں آپ ضعیفُ العمر ہوکر تشریف لائے اور پھر اس ضعیفُ العمری میں بھی عام لوگوں کی طرح زندگی کی بھاگ دوڑ سے تھک کر پُرسکون زندگی گزارنے کے بجائے اشاعتِ دین کیلئے سرگرمِ عمل رہے اور سیہون کے مدرسہ فقہُ الاسلام کی ترقی و تدریس میں اپنا کردار ادا کیا جہاں اسکندریہ تک سے علم کے پیاسے آکر سیراب ہوتے۔[10]

سید محمد عبدُ اللہ گیلانی قادری شطّاری عرف بابا بُلھے شاہ رحمۃُ اللہ علیہ  ( وفات : 1181ھ )  مجاہدات کی منازل طے کرنے کے بعد آپ رحمۃُ اللہ علیہ پہلے پہل مرشد کے حکم پر اپنے والدین کے پاس ” پانڈوکے“   تشریف لے گئے اور علم کی کرنیں بکھیرنے کے لئے وہاں کے چوہدری کے تعاون سے ایک مدرسہ قائم کیا  جو ایسے دینی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا کہ گرد و نواح سے علم کے پیاسوں کی پیاس بجھانے کا چشمۂ علم ثابت  ہوا۔  [11] پھر پیر و مرشد کے حکم پر قصور تشریف لے گئے اور آخر تک وہیں رہے ، وہاں بھی لوگ آپ کے گرویدہ ہوئے۔ آپ  نے لنگر کا سلسلہ جاری کردیا چنانچہ بھوک اور بے روزگارى کے ستائے ہوئے لوگوں کو بھی پىٹ بھر روٹى ملنے لگى، آپ رحمۃُ اللہ علیہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی تربیت بھی فرماتے تھے ۔   [12]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ما ہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] سوانح عمری حضرت داتا گنج بخش ، ص 23 ، 25 ، 38ماخوذاً

[2] اللہ کے خاص بندے ، ص469ماخوذاً

[3] حدیقۃ الاولیاء ، ص 270 ، اللہ کے خاص بندے ، ص 468 ماخوذاً

[4] قلائد الجواہر ، ص 5ملخصاً

[5] بہجۃالاسرار ، ص225

[6] بہجۃالاسرار ، ص184 ، 189

[7] فیضانِ بہاؤ الدین زکریا ملتانی ماخوذاً

[8] شہنشاہِ ولایت حضرت گنج شکر ، ص 31بتغیر

[9] ہشت بہشت ، راحت القلوب ، ص 220 ملخصاً

[10] فیضانِ عثمان مروَندی ، ماخوذاً

[11] دلوں کے مسیحا ، ص 325 ماخوذا

[12] فیضانِ بابا بلھے شاہ ، ص 49 تا 50 ملخصاً


Share

Articles

Comments


Security Code