شریعت ،طریقت سے جُدا نہیں ہے

اسلام کی روشن تعلیمات

شریعت ، طریقت سے جُدا نہیں ہے

*مولانا ابو جمال محمد بلال رضا عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر2022

  ” شریعت “  کا لفظ  ” شرع “  سے ، جبکہ طریقت کا لفظ  ” طریق “  سے ہے ، دونوں الفاظ کا معنی راستہ ہے ، لیکن شریعت سے مراد وہ راستہ جو چوڑا اور سیدھا ہو ، جبکہ طریقت سے مراد وہ راستہ جو تنگ اور خم دار ہو۔  [1]اصطلاحِ دین میں شریعت سے مراد آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال ہیں ، اور طریقت سے مراد آپ کےافعال ہیں۔  [2] یہ بھی کہا  گیا ہے کہ شریعت سے مراد نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسمانی حالات ہیں اور طریقت سے مراد آپ کی قلبی واردات ہیں۔  [3]یونہی ظاہری فقہ کا نام شریعت ہے اور باطنی فقہ کا نام طریقت۔  [4]

صراط مستقیم سے مراد : قراٰنِ کریم میں جس ’’صراطِ مستقیم‘‘ پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد شریعت ہے ، کیونکہ یہ وہ سیدھا راستہ ہے جس پر ہر شخص بآسانی چل کر منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔  [5] اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دین آسان ہے ، کیونکہ عام مسلمان سے صرف ظاہری احکام کی پیروی ہی مطلوب ہے اور اتنا ہی اس کی نجات کےلئے کافی بھی ہے۔ البتہ مُحبّانِ خدا صرف آسان راستے پر گامزن رہنا اپنی منزل تصور نہیں کرتے بلکہ ان کا مطلوب ذاتِ خدا ہوتی ہے  جس کے لئے وہ طریقت کے مشکل اور تنگ راستے کا انتخاب کرتے ہیں ، اس کٹھن سفر کا بدلہ انہیں ربِّ رحمٰن کے قُرب کی صورت میں ملتا ہے اور ان کا دیکھنا ، سننا ، چلنا اور چھونا قدرتِ الٰہی کا مظہر بن جاتا ہے۔  [6] یہی نہیں ، شریعت کے سفر میں وہ مرید ، طالب اور محب ہوتے ہیں اور طریقت کا کامیاب سفر خود انہیں  ” مراد ، مطلوب اور محبوب “  بنادیتا ہے۔

شریعت و طریقت کا باہمی تعلق : سوال یہ ہے : کیا طریقت پر چلنے کے لئے شریعت پر چلنا ضروری ہے؟ یا طریقت ، شریعت سے جدا کوئی الگ ہی راستہ ہے؟  تو جواب یہ ہے کہ طریقت ، شریعت کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بلکہ شریعت ہی کا تنگ و پیچدہ راستہ ہے جس پر چلنا شریعت ہی پر چلنا ہے بلکہ طریقت کی اس مشکل راہ پر چلنے والوں کو شریعت کے آسان راستے پر چلنے والوں کے مقابلے میں احکامات  کی زیادہ سختی اور پابندی جھیلنے کے علاوہ زیادہ عمل کرتے پڑتے ہیں۔یہاں شریعت کا راستہ چُھٹا وہاں طریقت بھی ہاتھ سے گئی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شریعت و طریقت دوراہیں ، متبائن نہیں ( یعنی دونوں راستے الگ الگ یا ایک دوسرے سے جدا نہیں )  ، بے اتباعِ شریعت ، خدا تک وصول محال ( ہے)۔ نہ بندہ کسی وقت کیسی ہی ریاضات و مجاہدات بجالائے اس رتبہ تک پہنچے کہ تکالیفِ شرع اس سے ساقط ہوجائیں۔  [7]طریقت طاقت ہے تو شریعت غذا ہے ، طریقت نظر ہے تو شریعت آنکھ ہے ، طریقت عمارت ہے تو شریعت بنیاد ہے ، طریقت پھل ہے تو شریعت درخت ہے۔ جیسے غذا کے بغیر طاقت ، آنکھ کے بغیر نظر ، بنیاد کے بغیر عمارت ، درخت کے بغیر پھل اور بالوں کے بغیر مانگ نہیں ہوسکتی ویسے ہی شریعت کے بغیر طریقت بھی باقی نہیں رہ سکتی۔

جھوٹی طریقت : بعض نام نہاد طریقت کی پیروکاری کا ڈھونگ رچانے والے اور شیطان کے مہلک ہتھیار یہ راگ الاپتے ہیں کہ  ” ہم تو طریقت کے مسافر ہیں ، ہمیں شریعت سے کیا غرض !  ( معاذ اللہ )  ہم تو اپنا اور دوسروں کا باطن صاف کرتے ہیں۔ “  ایسا کہنے والوں کا حلیہ عموماً دیکھنے جیسا بھی نہیں ہوتا ، باطن کی صفائی کے ان دعوے داروں کو ظاہر کی صفائی کئے بھی طویل عرصہ گزر چکا ہوتا ہے ! اور بس  ” حق ھو “  کی ضربیں اور  ” دَم “  لگا لگاکر لوگوں کو بہکانے  میں مصروف رہتے ہیں ، کہنے کو تو نمازیں مکہ ، مدینہ ، بغداد اور نہ جانے کہاں کہاں ادا کرتے ہیں ، لیکن طرح طرح کی نیازیں اپنے جھوٹے آستانوں پر ہی ہڑپ کررہے ہوتے ہیں۔

دعوتِ فکر : اے عاشقانِ اولیا ! ذرا سوچئے تو سہی ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے افعال کا نام طریقت ہے ، آپ کے مبارک دل کی کیفیات کا نام طریقت ہے ، باطن کو سنوارنے ، نکھارنے اور چمکانے کا نام طریقت ہے۔ کیا طریقت کے جھوٹے دعوے داروں کے وہی افعال ہیں جو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تھے؟ کیا ان کے دل کی وہی کیفیات ہیں جو آپ کی تھیں؟ جب ایسا نہیں ہے اور ہرگز نہیں ہے تو ایسوں کو طریقت کا پیروکار کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے ! سوچئے کہ جو مکار لوگ اپنا ظاہر نہیں سنوار سکتے وہ آپ کا باطن کیا سنواریں گے ! ! جنہیں ظاہری فقہ یعنی شریعت پر چلنے کا طریقہ نہیں آتا وہ باطنی فقہ یعنی طریقت پر چلنے کا کیا طریقہ جانیں گے ! !

شریعت و طریقت کی مثالیں : یادرکھئے ! طریقت کے سفر میں شریعت کی پابندی مزید بڑھ جاتی ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شریعت میں سخاوت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان فرض صدقے ادا کرے ، اور طریقت میں ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ صرف فرض پر قناعت نہ کرے نوافل صدقے بھی دے۔  [8]  ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : شریعت میں روزہ پیٹ اور دماغ کا ہوتا ہے مگر طریقت میں سارے اعضا کا کہ انہیں گناہوں سے بچایا جائے۔  [9]

جس صراطِ مستقیم یعنی شریعت پر چلنے ، جن پانچ نمازوں کو باجماعت پڑھنے ، جس زکوٰۃ  کو ادا کرنے اور جس روزے کو رکھنے کا حکم اللہ و رسول نے دیا ہے اور پوری زندگی کے لئے دیا ہے ، اگر کوئی انہیں پورا کرنے کے بجائے دیگر کاموں میں مصروف رہے اورپھریہ بھی سوچے کہ جو میں کررہا ہوں شریعت بھی یہی ہے اور طریقت بھی یہی ہے تو ایسے شخص کو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ” آپ جو سوچ رہے ہیں جہالت بھی یہی ہے اور گمراہی بھی یہی ہے۔  “

محبتِ خدا کے دعوے کی دلیل : قراٰنِ کریم میں محبتِ خدا کے دعوے داروں کو اپنا دعویٰ سچ ثابت کرنےکے لئے اتباعِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا حکم دیا گیا ہے۔  [10]جو اس اتباع میں کامیاب ہوجاتے  ہیں وہ سچے مُحبّان ِخدا کہلاتے ہیں اور اس اتباع کے نتیجے میں خود بھی محبوبانِ خدا بن جاتے ہیں۔ اب جو محبتِ خدا کا دعوے دار ہوکر بھی اتباعِ رسول نہ کرے یا یہ کہے کہ ”  نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال یعنی شریعت کی اتباع نہیں کروں گا ، بلکہ صرف طریقت کی راہ پر چلوں گا “  تو ایسا شخص اپنے دعوےمیں جھوٹا ہے ، کیونکہ اقوالِ مصطفےٰ عین شریعت ہیں اور شریعت عین صراطِ مستقیم ہے جس پر چلنا عین حکمِ خدا و مصطفےٰ ہے ، لہٰذا جب تک شریعت پر استقامت نہ ہو طریقت کا سفر شروع نہیں ہوسکتا اور جب شروع نہیں ہوسکتا تو مکمل کیسے ہوسکتا ہے ! !

رسالہ ’’شریعت و طریقت‘‘ : موضوع سے متعلق تفصیلی معلومات کےلئے فتاویٰ رضویہ جلد 21 میں موجود رسالے   ” مَقالُ العُرَفاء باعزازِ شرع و علماء “  کا مطالعہ کیجئے ، اَلحمدُ لِلّٰہ ! دعوتِ اسلامی نے اس رسالے کو آسان کرکے  ” شریعت و طریقت “  کے نام سے شائع کیا ہے جو مکتبۃُ المدینہ سے ہدیۃً حاصل کیا جاسکتا ہے اور دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net سے بالکل فری ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغُ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ کراچی



[1] لسان العرب ، ص2239 / 2665 ماخوذاً ، رسائل نعیمیہ ، ص 325

[2] فتاویٰ رضویہ ، 21 / 460

[3] مراٰۃ المناجیح ، 5 / 453

[4] مراٰۃ المناجیح ، 1 / 187 ماخوذاً

[5] صراط الجنان ، 3 / 206 ماخوذاً

[6] بخاری ، 4 / 248 ، حدیث : 6502 ماخوذاً

[7] فتاویٰ رضویہ ، 29 / 386 ، 387

[8] مراٰۃ المناجیح ، 3 / 91

[9] مراٰۃ المناجیح ، 3 / 136

[10] پ 3 ، اٰل عمرٰن : 31


Share