ہمارے آئیڈیل

ننھے میاں کی کہانی

ہمارے آئیڈیل

مولانا حیدر علی مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر2022

آج اسکول سے واپسی پر ننھے میاں بہت خوش تھے اور امی جان ، دادی جان تو ایک طرف ، گھر میں آنے جانے والے مہمانوں کو بھی بڑے جوش سے بتا رہے تھے کہ آنے والے جمعہ کو میرے اسکول میں بزمِ ادب ہو رہی ہے جس میں نعتِ رسولِ مقبول پڑھنے کے لئے میرا نام منتخب کیا گیا ہے۔ اصل مرحلہ تو ہر آتے جاتے سے اپنی خوشی شیئر کرنے کے بعد شروع ہوا تھا کہ بزمِ ادب میں نعت کون سی پڑھی جائے؟ ساری پسندیدہ نعتیں ایک ساتھ ہی ننھے میاں کے دماغ میں گونج رہی تھیں آخر یہی ترکیب ذہن میں آئی کہ پہلے کی طرح آپی سے ہی مشورہ کرنا پڑے گا۔

ننھے میاں کی بات سُن کر آپی تھوڑی دیر کے لئے تو بہت گہری سوچ میں چلی گئیں پھر کچھ لمحوں کے بعد کہنے لگیں : آج کل مدنی چینل پر نیا کلام چل رہا ہے ، آسان ہونے کے ساتھ ساتھ طرز بھی پیاری ہے ، میں آپ کو شام کو لکھ کر دے دوں گی اور بزمِ ادب سے پہلے بھی گھر میں تین چار بار پریکٹس کروا دوں گی۔ ننھے میاں شکریہ ادا کرکے فریج کی طرف چل پڑے کہ ساری پریشانی دور ہوچکی تو کیوں نہ آرام سے چاکلیٹ کے مزے لئے جائیں۔

بزمِ ادب شروع ہونے سے پہلے ہی ہال میں سبھی بچّے قطاروں میں بیٹھ چکے تھے وقتِ مقررہ پر نویں کلاس کے ایک بچّے نے تلاوتِ قراٰنِ مجید سے بزمِ ادب کا آغاز کیا جس کے بعد ننھے میاں نعت پڑھنے کے لئے ڈائس پر آئے ، درودِ پاک پڑھنے کے بعد انہوں نے نعت پڑھنا شروع کی :

یا نبی سب کرم ہے تمہارا ، یہ جو وارے نیارے ہوئے ہیں

اب کمی کا تصور بھی کیسا ، جب سے منگتے تمہارے ہوئے ہیں

ننھے میاں کی نعت ختم ہوئی تو طلبہ کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کی طرف سے بھی ما شآءَ اللہ کی آوازیں آئیں۔ اب تقریر (Speech) کی باری تھی تو دسویں کلاس کے غلام رسول بھائی ڈائس پر آگئے ،  غلام رسول بھائی کو اللہ پاک نے تقریر کی خوبی عطا کی تھی ، پورے شہر کے اسکولوں کے تقریری مقابلے میں پہلا انعام جیتا تھا۔ انہیں ڈائس پر دیکھ کر بچّے بھی خوش دکھائی دے رہے تھے اور پورے ہال میں خاموشی چھاچکی تھی۔غلام رسول بھائی نے اپنی تقریر شروع کی بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سب سے پہلے واجبُ الاحترام اساتذہ اور عزیز ساتھی طلبہ کو السّلام علیکم ورحمۃُ اللہ ! اسلام کا دامن ایسی عظیم شخصیات سے بھرا پڑا ہے جن کی اسلام اور مسلمانوں کے لئے خدمات پر لکھنے جائیں تو لائبریریاں بھر جائیں ، بیان کرنے لگیں تو سالوں لگ جائیں۔ ایسی ہی ایک عظیم بزرگ شخصیت پر میں آج آپ کے سامنے گفتگو کرنا چاہوں گا جو بچپن میں ہی ایسے نیک تھے کہ ان کے سچ بولنے کی برکت سے ڈاکوؤں کے پورے گروہ نے ڈاکہ زنی سے توبہ کرلی تھی۔

اتنا کہہ کر غلام رسول بھائی نے چند لمحوں کے لئے رُک کر ساتھی طلبہ کے چہروں کی طرف دیکھا اور پھر کہا : جی ہاں میری مراد آپ کے ذہنوں میں اُبھرنے والے عظیم بزرگ شیخ عبدُالقادر جیلانی ہی ہیں۔ پیارے ساتھی طلبہ! اللہ کے سب نیک بندوں کی طرح شیخ عبدُ القادر جیلانی کو بھی نماز سے بے حد محبت تھی آپ کی سوانح (Biography) میں لکھا ہوا ہے کہ  ” آپ چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے رہے تھے۔“  یعنی عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد آپ سونے کے لئے بستر پر تشریف نہ لے جاتے بلکہ اللہ پاک کی عبادت میں مشغول ہو جاتے یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت ہو جاتا اور یوں آپ عشا ہی کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے۔

پیارے ساتھی طلبہ ! ہم بھی اللہ کے نیک بندوں سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کبھی ہم نے غور کیا کہ ہم ان کی زندگی کو Follow بھی کرتے ہیں یا نہیں ! ساری رات کی عبادت تو بہت دور کی بات ہے ہم میں کچھ تو نمازِ فجر بھی ادا نہیں کرتے کبھی آنکھ نہ کھلنے کا بہانہ تو کبھی نیند کا بہانہ ! امی ابو اٹھائیں بھی تو کروٹ بدل کر پھر سو جاتے ہیں لیکن اسکول کا وقت ہو جائے تو ہماری نیند بھی اُڑ جاتی ہے اور امی ابو جی کی ایک ہی آواز پر ایسے بستر چھوڑ کر بھاگتے ہیں جیسے بستر پر کانٹے اُگ آئے ہوں۔ اس بات پر طلبہ کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کے چہروں پر بھی مسکراہٹ آگئی۔

غلام رسول بھائی نے اپنی تقریر دوبارہ شروع کی : پیارے ساتھیو ! آج دنیا میں اگر کسی کو اپنا آئیڈیل مانا جاتا ہے تو اس کو فالو بھی کیا جاتا ہے دنیا والے اپنی جگہ لیکن ہم مسلمانوں کے آئیڈیلز ہمارے بزرگانِ دین ہیں ، ان میں ایک نمایاں ترین پرسنالٹی شیخ عبدالقادر جیلانی ہیں جو اللہ پاک کے ولی ہیں۔ اگر ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کو فالو کرنا ہوگا تاکہ ہماری دنیا بھی اچھی ہو اور آخرت بھی اچھی ہو جائے۔


Share

Articles

Comments


Security Code