ولایت کے حصول کا طریقہ

تفسیر قراٰنِ کریم

ولایت کے حصول کا طریقہ

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ نومبر 2022

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :  ( اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲) الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳) )  ترجمۂ کنز العرفان : سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔(پ11 ، یونس : 62 ، 63) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : ولایت اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے ، جو اپنی مشیت و حکمت سے اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے ، چنانچہ اہلِ سُنَّت کا عقیدہ یہ ہے کہ ولایت وہبی ہے ، کسبی (محنت سے حاصل ہونے والی) نہیں۔ چنانچہ امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے لکھا : وِلایت کسبی نہیں محض عطائی ہے ، ہاں کوشش اور مُجَاہَدہ کرنے والوں کو اپنی راہ دکھاتے ہیں۔

(فتاویٰ رضویہ ، 21 / 606)

کتبِ عقائد میں ولی کی تعریف یوں ہے : الولي هو العارف بالله تعالى وصفاته بحسب ما يمكن ، المواظب على الطاعات المجتنب عن المعاصي المعرض عن الانهماك في اللذات والشهوات ترجمہ : ولی وہ ہے جو صفاتِ الٰہی کاممکنہ حد میں معرفت رکھنے والا ہو ، طاعتوں پر مواظبت کرنے والا ، گناہوں سے بچنے والا اور لذات و شہوات میں ڈوبنے سے اِعراض کرنے والا ہو۔(شرح العقائد النسفیۃ ، ص316)

البتہ یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کےاعلیٰ درجے کے اِخلاص و کمال پر مبنی نیک اعمال کی کثرت ومُداوَمَت پر اُنہیں وِلایت کا انعام عطا فرمادیتا ہے۔ وہ اعمال کون سے ہیں جن پر یہ انعام عطا کیا جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حقیقت میں تو ربِّ کریم کی مشیَّت ہے کہ چاہے تو کسی ایک عمل ہی پر مراتبِ عُلْیا عطا فرمادے ، لیکن اگر اولیاء کرام کے احوال و سیرت کا مطالعہ کریں تو اُن میں درج ذیل اوصاف عموماً مشترک نظر آتے ہیں کہ یا تو اِن اعمال پر وِلایت سے پہلے ہی اِستقامت نظر آتی ہے ، یا ولایت ملنے کے بعد یہ اعمالِ صالحہ اُن کی زندگی میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ لہٰذا یہ اعمال اپنانے کی کوشش کریں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ولیوں کے فیضان کا حصہ بھی عطا فرمادے گا۔ ولایت میں دوستی ، محبت ، قرب اور رجوع الیَ اللہ کا معنیٰ پایا جاتا ہے لہٰذا محبت ، دوستی ، قرب اور رجوع الیَ اللہ کے اوصاف اختیار کئے جائیں۔

پہلا عمل اتباع ِ سنّت ہے کہ ولایت خدا کی محبوبیت ہے اور خدا کی محبوبیت اُسے ہی ملے گی جو اس کے محبوب کو محبوب رکھے گا اور محبوب کی محبوب اداؤں کو ادا کرے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ )  ترجمہ : اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔(پ3 ، اٰل عمرٰن : 31)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ ایک ہی راستہ ہے یعنی سنتِ نبوی جس پر چل کر ولایت کی منزلیں طے ہوتی ہیں اور اسی اتباعِ سنت کا ایک عظیم حصہ شریعتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر چلنا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :  ( وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖؕ- )  ترجمہ : اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی۔(پ8 ، الانعام : 153) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دوسرا عمل تقویٰ ہے : تقویٰ گناہوں اور نفسانی خواہشات سے بچنے کا نام ہے اور تقویٰ کو اللہ تعالیٰ نے ولیوں کی نمایاں ترین صِفَت کے طور پر بیان فرمایا :  ( اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲) الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳) )  ترجمہ : سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔(پ11 ، یونس : 62 ، 63) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 تیسرا عمل دل کو غیر اللہ سے پاک کرنا : خدایکتا ہے اور وہ یکتائی کو پسند کرتا ہے اورایمان کی مٹھاس اُسے ہی دیتا ہے ، جو اُس سے سب سے بڑھ کرمحبت کرے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :  ( وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- )  ترجمہ : اور ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔(پ2 ، البقرۃ : 165) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور حدیث میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ دعا تعلیم فرمائی : اَللّٰهُمَّ اَسْاَلُكَ اِيمَانًا ‌يُبَاشِرُ قَلْبِي حَتّٰى اَعْلَمَ اَنْ لَّنْ يُّصِيبَنِي اِلَّا مَا كَتَبْتَ لِي وَرِضًا بِمَا قَدَّرْتَ عَلَيَّ ترجمہ : اے اللہ! میں تیری بارگاہ سے ایسا ایمان اور یقین مانگتاہوں جو میرے دل میں رَچ جائے ، حتی کہ میں یقین رکھوں کہ مجھے وہی کچھ پہنچ سکتا ہے جو تو نے میرے لیے لکھ دیا ، اور مزید جو کچھ تو نے میرے مقدر میں لکھ دیا اُس پر راضی رہنے کا سوال کرتا ہوں۔(مسند البزار ، 12 / 19)

اسی لیے اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا دل ہر وقت خدا کے ساتھ لگا رہتا ہے ، حتی کہ غافل لوگ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر بھی خدا سے واصِل نہیں ہوتے ، بلکہ اپنی دکانداری سوچ رہے ہوتےہیں ، جبکہ اللہ کا ولی بازار میں سودا بیچتے ہوئے بھی خدا کی یاد دل میں بسائے ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( رِجَالٌۙ-لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِالزَّكٰوةِﭪ-  )  ترجمہ : وہ مرد جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے غافل نہیں کرتی۔(پ18 ، النور : 37) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) جن کا دل غیر کی محبت سے پاک ہوتا ہے ، اُنہیں عبادت سے لذت ملتی ہے ، جیسے حدیث میں فرمایا : جعلت قرۃ عینی فی الصلٰوۃ ترجمہ : نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی۔(مصنف عبد الرزاق ، 4 / 249 ، حدیث : 7969) بلکہ نماز اُن کی معراج ہوتی ہے ، جیسا کہ روایت میں ہے : الصلٰوۃ معراج المومن ترجمہ : نماز مومن کی معراج ہے۔(مرقاۃ المفاتیح ، 1 / 116)

چوتھا عمل حسن ِ اخلاق : خدا کی صفات میں ”  حَلِیم ، سَلام ، وَھَّاب ، مُعْطِی ، صَبُور ، شَکُور ، کَرِیم ، رَحِیم ، رَحْمٰن ، غَفَّار اور سَتَّار  “ ہے ، تو وہ بندوں میں اپنی ایسی صفات کا عکس پسند فرماتا ہے ، نیز تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب میں پیارا وہ ہے جو اُس کی عیال کے ساتھ اچھاسلوک کرے۔(شعب الایمان ، 6 / 43 ، حدیث : 7444) یونہی متقین کے متعلق فرمایا :  ( وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) )  ترجمہ : اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیک لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔(پ4 ، اٰل عمرٰن : 134) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

پانچواں عمل عاجزی ہے : متکبر خدا کو ناپسند ہیں ، جیسا کہ فرمایا : ( اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) )  ترجمہ : بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14 ، النحل : 23) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) جبکہ عاجزی والے خدا کو پسند ہیں ، فرمایا :  ( وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا )  ترجمہ : اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر (عاجزی سے) آہستہ چلتے ہیں۔ (پ19 ، الفرقان : 63) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نیز عاجزی اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنَّت ہے اور محبوب کی ہر ادا خد اکو محبوب ہے۔ سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فتح ِ مکہ کے موقع پر سر جھکائے ہوئے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے۔(شرح سنن ابو داؤد لابن رسلان ، 6 / 43) مزید خود نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ما ‌تواضع احد لله الا رفعه اللہ ترجمہ : کوئی بھی شخص اللہ تعالیٰ کے لیے عاجزی اختیارکرے ، تو اللہ تعالیٰ اُسے بلندی عطا فرماتا ہے۔(مسلم ، ص1071 ، حدیث : 6592)

چھٹا عمل نفس کا رضائے الٰہی پرراضی ہوناہے : اولیاء کرام اپنی خوشی اور خواہش کو خدا کی مرضی پر قربان کردیتے ہیں اور اپنا سب کچھ خدا کے حوالے کردیتے ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :  (  اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ- )  ترجمہ : بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کے لیے جنت ہے۔(پ11 ، التوبۃ : 111) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :  (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲) )  ترجمہ : تم فرماؤ ، بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ (پ8 ، الانعام : 162)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور ایسوں ہی کے قول و عمل کےمتعلق اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ کہتے ہیں :  ( وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ(۴۴) )  ترجمہ : اور میں اپنے کام اللہ کو سونپتا ہوں ، بیشک اللہ بندوں کو دیکھتا ہے۔(پ24 ، المؤمن : 44)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور پھر یہی رضاو قضائے الٰہی پر راضی و مطمئن رہنے والی ہستیاں ہوتی ہیں جنہیں موت کے وقت ندا کی جاتی ہے :  ( یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىٕنَّةُۗۖ(۲۷) ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ(۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ(۲۹) وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۠(۳۰) )  ترجمہ : اے اطمینان والی جان ، اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آ کہ تو اس سے راضی ہووہ تجھ سے راضی ہو ، پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔(پ30 ، الفجر : 27تا30) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ساتواں عمل ذکرِ الٰہی کو اپنی زندگی کا حصہ بنالینا : اولیاء کرام کی زندگی کا سب سے بڑا عمل خدا کی یاد ہے ، خواہ زبان سے ہو یا دل سے یا اعضاء کے ذریعے ، وہ ہمہ وقت اُسی کی یاد میں مشغول رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :  ( الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ )  ترجمہ : جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔(پ4 ، اٰل عمرٰن : 191) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور فرمایا :  ( وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ- )  ترجمہ : اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں۔ (پ22 ، الاحزاب : 35) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)    اور فرمایا :  (فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ )  ترجمہ : تو تم مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد کروں گا۔(پ2 ، البقرۃ : 152) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور حدیثِ قدسی میں فرمایاگیا : انا جلیس من ذکرنی ترجمہ : جو مجھے یاد کرے ، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔  (مرقاۃ المفاتیح ، 5 / 68 ، تحت الحدیث : 2285 ، مصنف ابن ابی شیبہ ، 2 / 66 ، حدیث : 1231)

اللہ تعالیٰ ہمیں اولیاء کرام کی پاکیزہ سیرتوں کا فیضان عطا فرمائے اور ہم اللہ کی بارگاہ میں اس کے ولیوں کی محبت کا سوال کرتے ہیں جو سوال ہمیں اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سکھایا ہے۔ اللّٰھم انی اسئلک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی حبک ترجمہ : اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں ، اور اس شخص کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے ، اور اس عمل کا بھی سوال کرتا ہوں جو تیری محبت تک پہنچادے۔(ترمذی ، 5 / 296 ، حدیث : 3501)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code