Book Name:Reham Dili Kesay Mili
شریف میں کھجور کے سوکھے تنے کا ایک ستون ( Pillar ) تھا ، سرکارِ عالی وقار ، مکی مدنی تاجدار صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم اس ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کے لئے لکڑی کا منبر بنا دیا گیا ، جمعہ کا دِن تھا ، سرکارِ اَعْظَم ، نورِ مُجَسَّمْ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم مسجد میں تشریف لائے ، منبر پر تشریف فرما ہوئے تو اچانک کسی کے رونے کی آواز آنے لگی ( جیسے کوئی بچہ بڑے دَرْد سے بلبلا کر رو رہا ہو ) ، دیکھا گیا تو وہی کھجور کے سُوکھے تنے کا سُتون جس کے ساتھ ٹیک لگا کر دوجہاں کے تاجدار صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم خطبہ دیا کرتے تھے ، فراقِ مصطفےٰ میں پھُوٹ پھُوٹ کر رو رہا تھا ، رحمتِ دوجہان ، مکی مدنی سلطان صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم سے اُس کا رونا دیکھا نہ گیا ، آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم منبر مبارک سے نیچے اُترے ، اس سُتُون کے قریب تشریف لائے ، اس پر دستِ شفقت رکھا اوربُخاری شریف میں الفاظ ہیں کہ رحمتِ عالَم ، نورِ مُجَسَّمْ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے اس سُتون کو چُپ کروانے کے لئے سینے سے لگا لیا ، اب کیا تھا ، جیسے روتے ہوئے بچے کو ماں سینے سے لگائے تو وہ ہلکی ہلکی سسکیاں لینے لگتا ہے ، وہ ستون بھی ایسے ہی سسکیاں لینے لگا ، یہاں تک کہ چُپ ہو گیا۔ ( [1] )
سُبْحٰنَ اللہ! یہ ہے رحمتِ عامّہ ، سب پر رحمت ، سب پر شفقت...!! کاش! رحمتِ دوجہاں صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی اس رحمت و شفقت کا ایک قطرہ ہمیں بھی نصیب ہو جائے ، کاش! ہم بھی رحم دِل ہو جائیں۔
آہ! ہمارا حال بےحال ہے ، اب تو ہمارے دِل ایسے سخت ہوئے ہیں کہ جمادات تو