Book Name:Reham Dili Kesay Mili

  اور بھلائی والا معاملہ تو کرنا ہے ، ذِہن میں سُوال اُٹھتا ہے کہ رحم دِلی کی مقدار کتنی ہونی چاہئے ؟  ہم دوسروں پر کس  حد تک رحم کریں ؟ امام شعرانی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ   فرماتے ہیں : مخلوقات میں سے ہر ایک خُود اپنے حق میں جتنا رَحْم دِل ہو تا ہے ، ہم اُس کے حق میں اُس سے بھی بڑھ کر رحم دِل  ( Kind Hearted ) ہو جائیں ، یہ وِراثتِ مصطفےٰ ہے۔ ( [1] )

اللہ اَکْبَر! اے عاشقانِ رسول! اِسْلام کا حُسْن دیکھئے! اِسْلام ہمیں صِرْف رحم دِلی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ اللہ پاک کی کوئی مخلوق خُود اپنے حق میں جتنی رحم دِل ہے ، تم اُس سے بڑھ کر اس پر رحم دِل ہو جاؤ!   سُبْحٰنَ اللہ!

ہم میں سے شاید بہت ساروں کو یہ تجربہ  ( Experience ) ہو گا کہ ہم اپنے آپ کو تھپڑ ماریں تو اتنی زور سے نہیں مار سکتے ، جتنی زور سے دوسروں کو مار سکتے ہیں۔  تجربہ کر کے دیکھ لیجئے! آدمی ہاتھ اُٹھا کر ، اپنے پُورے زور سے کھینچ کر اپنے آپ کو تھپڑ لگائے ، پیچھے سے ہاتھ بڑے زور سے آئے گا مگر قریب آ کر خود بخود آہستہ ہو جائے گا ، مطلب ہم اپنے آپ کو پُورے زَور سے تھپڑ نہیں مار پائیں گے۔ کیوں ؟  اس لئے کہ ہمیں دَرْد ہوتا ہے ، معلوم ہے کہ تھپڑ لگے گا تو دَرْد ہو گا ، اس لئے ہاتھ خود بخود رُکتا ہے ، یہ ہماری اپنی ذات پر شفقت ہے ، یہ ہمارا اپنی ذات پر رحم ہے۔ اس رحم اور شفقت سے کہیں زیادہ بڑھ کر دوسروں پر رحم کرنا ، یہ سرکارِ عالی وقار ، مکی مدنی تاجدار صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی وِراثَت  ہے۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام  کی رحم دلی

اللہ پاک کے نبی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام بڑے جلال والے تھے اور اس کے ساتھ


 

 



[1]...لواقح الانوار القدسیہ ، العہد السابع و السبعون بعد المائۃ ، جلد : 1 ، صفحہ : 573۔