Book Name:Ahl e Taqwa Ke 4 Osaf
کہنا شروع کر دوں کہ تم نے راستہ دُرست نہیں بتایا ، کیا دلیل ہے کہ تم جو بتا رہے ہو وہی دُرست راستہ ہے ؟ تو اس جھگڑے سے میں اپنی منزل پر نہیں پہنچ پاؤں گا ، میں نے اپنی منزل پر پہنچنا ہے تو مجھے بِن دیکھے ماننا ہی پڑے گا۔
اسی طرح نابینا شخص جسے کچھ نظر نہیں آتا ، اسے سڑک پار کرنے کے لئے کسی کا ہاتھ پکڑنا پڑتا ہے ، اس پر اِعتماد کرنا پڑتا ہے ، اگر وہ کسی کا ہاتھ نہیں پکڑتا تو وہ حادثے کا شِکار ہو سکتا ہے اور اگر وہ کسی اَنکھیارے کا ہاتھ پکڑ لے تو اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم ! باحفاظت سٹرک پار کر لے گا۔
اسی طرح * ہم اپنے کل کو نہیں جانتے * ہم نے قبر میں لوگ اُترتے دیکھے ہیں مگر قبر میں اُترنے کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟ ہم نہیں جانتے * قیامت ، حشر ، پُل صراط ، جنّت ، دوزخ ان سب کو ہم نے نہیں دیکھا * بلکہ ہمارا آنے والا کل کیسا ہو گا ؟ ہم اس مُعاملے میں بھی گویا نابینا ہیں ، ہم نہیں جانتے کہ کل کیا ہو گا۔ لہٰذا ہمیں کسی آنکھ والے کا ہاتھ پکڑنا پڑے گا ، ہم نہیں جانتے ، جو جانتا ہے ہمیں اس کی بات کو بِن دیکھے ماننا پڑے گا ، مانیں گے تو ہی کامیاب ہو پائیں گے ، اگر نہیں مانیں گے تو ناکام رہ جائیں گے۔ اس لئے ہدایت قبول کرنے کی بنیادی شرط ہے کہ ہدایت وہی قبول کر سکتا ہے جو بِن دیکھے مان لیتا ہو ، جو بِن دیکھے نہ مانے ، چُوں چراں کرے ، عقل کے گھوڑے دوڑائے ، وہ ہدایت قبول نہیں کر سکتا۔ کسی شاعِر نے کہا ہے :
تجھے کیا بتاؤں کہ معجزہ کیا ہے تُو تو آگے سے بولتا ہے مِیَاں
وضاحت : یعنی جو آگے سے زبان چلاتا ہو ، چاند دوٹکڑے ہوتا دیکھ کر بھی کہہ دے کہ یہ جادُو ہے ، پتھروں کو کلمہ پڑھتے سُنے ، پھر بھی نہ مانے ، ایسے شخص کو معجزے دیکھ کر بھی فائدہ نہیں ہوتا۔