Book Name:Ahl e Taqwa Ke 4 Osaf
سُورَہِ بَقَرَہ ، آیت : 2- 5
اللہ پاک اِرشاد فرماتا ہے :
هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ(۲) الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵) ( پارہ : 1 ، سورۂ بقرہ : 2-5 )
ترجَمہ کنزُ العرفان : ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔ وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ ( ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔
پیارے اِسلامی بھائیو ! ہم نے سُورَۂ بَقَرَہ کی4 مُبارک آیات سُننے کی سَعَادت حاصِل کی ، ان بابرکت آیات میں بُنیادی طَور پر قبولِ ہِدایت کی اہلیت بیان ہوئی ہے۔
یاد رکھئے ! یہاں دو باتیں ہیں : ( 1 ) : ایک ہے قُرآن کا ہِدایت ہونا ( 2 ) : اور دوسرا ہے؛ اس ہدایت کو قبول کرنا۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ مثال سے یُوں سمجھئے کہ مدینۂ مُنَوَّرہ جانے والے جہاز روزانہ پرواز کرتے ہیں مگر ان میں بیٹھ کر مدینہ شریف پہنچتا کوئی کوئی ہے۔ جہاز کا مدینے شریف جانا اور بات ہے ، میرا اُس میں بیٹھ کر مدینۂ مُنَوَّرہ پہنچ جانا اور