Book Name:Ummat e Muslima Akhri Ummat Kyon
، حضرت محمد بن قاسِم رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ دَیْبُل پہنچے ، کافی دِن جنگ جاری رہی ، آخر دَیْبُل قلعہ فتح کر لیا گیا ، قیدیوں کو آزاد کروا لیا گیا۔
دَیْبُل قلعے کے قید خانے کا جو نگران تھا ، اُس نے مسلمان قیدیوں کے پاس دِن رات گزارے تھے ، اُن کے اَخْلاق ، ان کے عِبَادت کرنے کا انداز وغیرہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور یہ ان سے بہت مُتاثر ہوا تھا ، چنانچہ جس وقت مسلمانوں کا لشکر دَیْبُل قلعہ پر فتح کے جھنڈے لہرا رہا تھا ، قیدخانے کے اس نگران کو حضرت محمد بن قاسِم رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کے سامنے پیش کیا گیا ، آپ نے اسے اِسْلام قبول کرنے کی دَعْوت دی ، یہ شخص مسلمانوں کے اَخْلاق ، انداز اور عادات سے مُتاثر تو ہو ہی چکا تھا ، چنانچہ اس نے فورًا کلمہ پڑھا اور دائرۂ اسلام میں داخِل ہو گیا۔ ( [1] )
پیارے اسلامی بھائیو ! یہ ہے مسلمانوں کا پیارا اَخْلاق ، پیارا پیارا کردار... ! ! جسے دیکھ کر غیر مسلم کلمہ پڑھ لیا کرتے تھے۔ یہ صِرْف ایک قید خانے کے نگران کی بات نہیں ہے ، محمد بن قاسِم رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے جب سندھ فتح کیا تو اس علاقے کا ظاہِری نقشہ اگرچہ یہی تھا مگر یہاں کا انداز ، یہاں کے رہنے والوں کی عادات و اَطْوار اور اَخْلاق تبدیل ہو گئے تھے ، یہی دَیْبُل نامی قلعہ جو پہلے کفر و شرک کا اَڈّہ تھا ، بعد میں علمِ دِین کا بہت بڑا مرکز بن گیا ، یہاں بڑے بڑے علماء ، مُحدِّثین اور نیک لوگ پیدا ہوئے ، اس کے عِلاوہ پُورے سندھ میں ہی علمِ دین پھیلا ، یہاں بڑے بڑے عُلَماء پیدا ہوئے ، یہاں تک کہ حضرت بایزید بسطامی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ جیسے بلند رُتبہ ولئ کامِل کے ایک استاد اَبُو علی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ بھی سندھی تھے ، ان سے آپ