Book Name:Ummat e Muslima Akhri Ummat Kyon
حدیثِ پاک میں ہے : اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیّات اَعْمَال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔ ( [1] )
اے عاشقانِ رسول ! اچھی نیت جَنّت میں پہنچا دیتی ہے۔ آئیے ! بیان سننے کی نیتیں کر لیتے ہیں ، میں نیتیں کرواتا ہوں ، آپ دِل میں ارادہ پائیں تو اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم ! کہہ کر اس کا اظہار فرمائیں : * عِلْمِ دین سیکھوں گا * پورا بیان سُنوں گا * بااَدَب بیٹھوں گا * بیان کے اَہم نِکات لکھ لوں گا * جو سنوں گا ، گھر جا کر گھر والوں کو ، بچوں کو ، دوست احباب کو بتا کر عِلْم دِین پھیلانے کا ثواب کماؤں گا۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب ! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
89 سن ہجری کی بات ہے ، سراندیپ ( موجودہ سری لنکا ) کے علاقے سے ایک قافلہ سمندر کے راستے سے عرب کی طرف روانہ ہوا ، اس میں مسلمان بھی تھے ، جو حج یا عمرہ کرنے کے اِرادے سے روانہ ہوئے تھے ، ان میں مسلمان خواتین بھی شامِل تھیں ، یہ قافلہ جب سندھ کے ساحِل کے قریب سے گزرا تو ان پر کچھ ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا ، ان کا ساز و سامان لوٹ لیا اور لوگوں کو قیدی بنا کر لے گئے۔
ان قیدیوں کو دَیْبُل نامی ایک قلعے میں رکھا گیا۔ جب یہ خبر اُس وقت کے مسلمان حکمران تک پہنچی تو انہوں نے فورًا ان کی رہائی کے لئے کوشش شروع کی ، اُس وقت سندھ کا حکمران راجہ داہِر جو غیر مسلم تھا ، وہ جب قیدیوں کو کسی طرح آزاد کرنے پر راضی نہ ہوا تو ایک 17 سالہ نوجوان حضرت محمد بن قاسِم رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کو بڑا لشکر دے کر روانہ کیا گیا