Book Name:Nafl Rozun Key Fazail

میں قیامت کے دِن کا سامان کر رہا ہوں

امام بیہقی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ لکھتے ہیں:ایک مرتبہ صحابئ رسول حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہما مدینے کے اطراف کی طرف تشریف لے گئے، آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے، ایک جگہ جا کر آپ نے قیام فرمایا (یعنی ٹھہر گئے)، دسترخوان بچھا دیا گیا۔ اسی دوران وہاں سے ایک چرواہا گزرا جو اپنی بکریاں چَرا رہا تھا۔ اس نے صحابئ رسول رَضِیَ اللہُ عنہ کی خِدْمت میں سلام عرض کیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہما نے (سلام کا جواب دیا اور حُسْنِ اَخْلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے) فرمایا: آپ بھی آئیے! ہمارے ساتھ کھانا کھا لیجئے! چرواہا بولا: میں روزے سے ہوں۔

یہ رمضان کا مہینا تو تھا نہیں اورعرب کی سخت تَرِین گرمی تھی، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہ نے حیرانی سے پوچھا: یہ پہاڑی علاقہ...!! اتنی سخت گرمی کے دِن...!! گرم لُو چل رہی ہے، تم بکریاں چَرا رہے ہو، کیا اس حالت میں تم نے نفل روزہ رکھا ہوا ہے؟ اس پر چرواہے نے بڑا پیارا جواب دیا، بولا: اِنِّی واللہِ اُبَادِرُ اَیَّامِی الْخَالِیَۃِ اللہ پاک کی قسم! میں اپنے گزرے دِنوں کو ٹھنڈا کر رہا ہوں (یعنی میں نفل روزہ رکھ کر اپنے گُنَاہوں کی مُعَافِی اور جنّت میں داخلے کا سامان کر رہا ہوں)۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہما یہ سُن کر خوش ہوئے، بعد میں آپ نے اس چرواہے کو اس کے مالِک سے خرید کر آزاد کر دیا۔([1])

سُبْحٰنَ اللہ!پیارے اسلامی بھائیو! اس نیک سیرت چرواہے کی سوچ پر قربان جائیے! اس کا کتنا پیارا ذہن تھا ...!! دُنیا کے یہ دِن اگرچہ گرمی کے ہیں، ان دِنوں میں روزہ رکھنا اگرچہ بہت دُشوار ہے مگر قیامت کی گرمی کے سامنے یہ گرمی کچھ بھی نہیں ہے، لہٰذا ہمیں


 

 



[1]... شعب الایمان، الباب الخامس والثلاثون، جلد:4،صفحہ:329، حدیث:5291 خلاصۃً۔