Book Name:Namaz Ba-Jamat Ke Fazail

ایمان افروز بات لکھی، فرماتے ہیں: عُلَمائے بنی اسرائیل 3بیماریوں میں گرفتار تھے: (1):خود پسندی (جیسے قرآنِ کریم میں بھی بعض جگہ بتایا گیا کہ یہ خود کو اللہ پاک کا محبوب بتاتے تھے، ان کا یہ ماننا تھا کہ ہم ہر گز جہنّم میں نہ جائیں گے، اگر گئے بھی تو چَند دِن ہی رہیں گے وغیرہ، یہ ان کی خُودپسندی تھی، جو اِنہیں اِیمان لانے سے روک رہی تھی) (2):دوسری بیماری مال کی حِرْص (ان لوگوں کو چونکہ نَذرانے ملتے تھے، لوگ انہیں عالِم، فاضِل سمجھ کر ان کی خِدمت کرتے تھے، اُس وقت کے غیر مُسلم حکمرانوں نے ان کے لئے باقاعِدہ وظیفے مقرَّر کر رکھے تھے، ان نذرانوں اور وظیفوں کی حِرْص تھی، یہ جانتے تھے کہ مُحَمَّد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم سچے نبی ہیں مگر انہیں اپنے نذرانے اور وظیفے بند ہو جانے کا ڈر تھا، اس لئے کلمہ نہیں پڑھتے تھے) (3):تیسری بیماری ان کی یہ تھی کہ یہ لوگ حَسَد میں مبتلا تھے (حضرت یعقوب عَلَیْہِ السَّلام کے بعد سے نُبوَّت بنی اسرائیل میں چلی آ رہی تھی، اس دوران جو بھی نبی تشریف لائے، سب بنی اسرائیل ہی میں سے تھے، اب جب آخری نبی، مُحَمَّدِ عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم حضرت اسماعیل عَلَیْہِ السَّلام کی اَوْلاد میں تشریف لے آئے تو انہیں حَسَد ہوا کہ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم، بنی اسرائیل میں کیوں نہ آئے، اسی حَسَد کی آگ میں جَل کر انہوں نے کلمہ پڑھنے، محبوبِ خُدا، مُحَمَّدِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی غُلامی میں آنے سے اِنْکار کر دیا)۔ غرض کہ یہ 3باطنی بیماریاں تھیں، جو بنی اسرائیل کو کلمہ پڑھنے اور اسلام قبول کرنے سے روک رہی تھیں،چنانچہ ان کی ان 3بیماریوں کے لئے 3علاج تجویز کئے گئے، ارشاد ہوا: ([1])

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ (پارہ:1، البقرۃ:43)

ترجمہ کنزُ العِرفان:اور نماز قائم رکھو۔

اس کی برکت سے تمہیں خُود پسندی سے نجات مل جائے گی، یعنی جب تم سچّے دِل


 

 



[1]...تفسیرِ نعیمی، پارہ:1، سورۂ بقرۃ، زیر آیت:43، جلد:1، صفحہ:339 مفصلاً۔