Hazrat Ismail Ke Osaf

Book Name:Hazrat Ismail Ke Osaf

سکتا تھا...!!

اسی طرح ایک مرتبہ آپ نے کسی سے وعدہ کیا کہ میں فُلاں جگہ تم سے مِلوں گا۔ چنانچہ مقررہ وقت پر آپ اس جگہ پہنچ گئے۔ وہ شخص بُھول گیا۔ اِنتظار کرتے کرتے شام ہو گئی، پِھر شام کے بعد رات اور پِھر اگلا دِن آ گیا، اب پُوری رات گزرنے کے بعد اگلے دِن اس شخص کو یاد آیا، جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا آپ عَلَیْہ ِالسَّلام اسی جگہ انتظار فرما رہے ہیں۔ حیرانی سے عرض کیا: آپ ابھی تک یہیں ہیں؟ (افسوس!) میں بُھول گیا تھا۔

اب یہاں نبوی اَخْلاق دیکھئے! آپ نے غُصہ بھی نہیں فرمایا، اس شخص کو ڈانٹ بھی نہیں پِلائی، بُرا بھلا بھی نہ کہا بلکہ نرمی سے فرمایا: جب تک تم نہ آتے، میں یہیں ٹھہرا رہتا۔([1])

سُبْحٰنَ اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! یہ ہیں اللہ پاک کے نبی حضرت اسماعیل عَلَیْہ ِالسَّلام..! انہی کی یاد میں ہم قربانیاں کیا کرتے ہیں، ہر سال ہزاروں جانور رَبّ کے نام پر ذَبْح کرتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے، قربانی کرنی ہے، ضرور کرنی ہے، جن پر واجِب ہے، ان کو تو کرنی ہی کرنی ہے، ورنہ گنہگار ہوں گے مگر اس کے ساتھ ساتھ جن کی یاد میں قربانی کرتے ہیں، ان کے اَخْلاق بھی اپنانے ہیں۔ آپ عَلَیْہ ِالسَّلام وعدوں کے سچّے تھے، جب وعدہ کر لیتے تو اسے پُورا کیا کرتے تھے۔ افسوس! ہمارے ہاں حالات اب اُلٹ پُلٹ ہو گئے ہیں۔ وعدہ نِبھانا ہمارے دِین میں شامِل ہے مگر لوگ وعدہ کرتے ہیں، نبھاتے نہیں ہیں *وعدہ کر لیا: فُلاں وقت ملوں گا۔ ملتے نہیں ہیں *جس کا قرض لَوٹانا ہے، اس سے وعدہ کر لیا: شام کو دے دُوں گا، فُلاں وقت دے دُوں گا، دیتے نہیں ہیں۔ اگر بالفرض اِنتظام نہ ہو سکا تو مزید مُہلت بھی نہیں مانگتے بلکہ مُنہ بھی نہیں دِکھاتے بلکہ اب تو مزید اَپ ٹُو ڈیٹ معاملہ ہو گیا، جس کا


 

 



[1]...تفسیر درمنثور، پارہ:16، سورۂ مریم، زیر آیت:54، جلد:5، صفحہ:516 مفصلاً۔