Book Name:Hajj e Wida Ke Iman Afroz Waqiaat

مسلمانوں کے پہلے و دوسرے خلیفہ حضرت ابوبکر و حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہمانے جب آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کو مسکراتے دیکھا تو عرض کیا: باَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّی اِنَّ ہٰذِہٖ لَسَاعَۃٌ مَاکُنْتَ تَضْحَکُ فِیْہَا یعنی (یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم!) ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ وہ گھڑی ہے کہ اس میں آپ عموماً مسکرایا نہیں کرتے فَمَا الَّذِیْ اَضْحَکَکَ، اَضْحَکَ اللہُ سِنَّکَ اللہ پاک آپ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے، آج کیا ہوا کہ آپ خِلافِ معمول (Out of Routine) مسکرا دئیے ہیں؟

رسولِ ذِیشان، مکی مدنی سلطان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: (میں نے اپنی اُمَّت کی بخشش کی دُعا کی تھی، اللہ پاک نے میری دُعا قبول کی اور ساری اُمَّت کو بخش دیا) جب شیطان کو خبر ہوئی کہ رَبِّ کریم نے میری ساری اُمَّت کو بخش دیا ہے  تو اس نے اپنے سَر پر مٹی ڈالی اور وَیْل و ثُبُور مانگتا (یعنی ہائے ہلاکت! ہائے ہلاکت! کہتا) ہوا بھاگ گیا، میں شیطان کی یہ بدحواسی دیکھ کر مسکرا رہا ہوں۔([1])  

حدیثِ پاک کی مختصر وضاحت

مشہور مفسرِ قرآن، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ عَلَیْہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: ظاہِر یہ ہے کہ یہاں اُمَّت سے مُراد قیامت تک آنے والے حاجی ہیں، اس صُورت میں دُعائے مصطفےٰ کا معنی یہ ہو گا: اے اللہ پاک! قیامت تک میرا جو بھی اُمّتی حج کو آئے، وہ بالکل بخشا جائے، اس کا کوئی گُنَاہ باقی نہ رہے۔ اللہ پاک نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کی یہ دُعا قبول فرمائی اور حاجیوں کے لئے بخشش کی خوشخبری سُنا دی۔


 

 



[1]...ابنِ ماجہ،کتاب المناسک،باب الدعاء بعرفۃ،صفحہ:489،حدیث:3013  ۔