Fazail e Hassnain Karimen

Book Name:Fazail e Hassnain Karimen

عقیقہ کب کرنا چاہیے؟:

 شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت،  حضرت علامہ مولانا  محمد الیاس عطّارقادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے’’عقیقہ کے بارے میں سوال جواب ‘‘ میں ’’ فتاویٰ رضویہ ‘‘کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں: میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،   امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں:عقیقہ ولادت کے ساتویں روز  سُنّت ہے اور یہی اَفْضل ہے، ورنہ چَودہویں،ورنہ اِکّیسویں دن۔(فتاوٰی رضویہ ج ۲۰ ص ۵۸۶)   مُفْتی محمد اَمْجد علی اَعْظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:عقیقے کیلئے ساتواں دن بہتر ہے اور اگر  ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں ، سُنّت اَدا ہوجائے گی ۔ بعض نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اِکّیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بِہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچّہ پیدا ہو اُس دن کو یاد رکھیں، اُس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے تو وہ ساتواں ہوگا، مَثَلاً جُمُعہ کوپیدا ہوا تو جُمعرات ساتواں دن ہے اورسنیچر(یعنی ہفتے)کوپیداہواتوساتواں دن جُمعہ ہوگاپہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جُمعہ کو عقیقہ کرے گا اس میں ساتویں دن کا حساب ضَرور آئے گا۔ (بہارِشریعت ج۳ص ۳۵۶)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !  صلَّی اللہُ   علٰی محمَّد

حضراتِ حسنین رَضِیَ اللہُ  عَنْہما احادیث کی روشنی میں:

پیارے اسلامی بھائیو ! نبیِّ کریم، رؤف ٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ  عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کو اہلبیتِ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے بے حد مَحَبَّت تھی اور ان میں سے سب سے زِیادہ محبوب ترین حضرت سَیِّدُنا امام