Book Name:Karbala Se Milne Wala Aik Sabaq
جا رہا ہے ۔
اے پیارے اسلامی بھائیو!گُنَاہوں کے اندھیروں کو ختم کرنے کے لئے امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہ عنہ کربلا میں تشریف لائے تھے، یہ سب بُرائیاں یزیدیت ہیں مگر ہم کربلا والے، خُود کو حسینی کہنے والے، خُوب جوش و خروش کے ساتھ حسینی لنگر پکانے، کھانے اور بانٹنے والے، ان بُرائیوں میں مبتلا ہیں۔ امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ کی یاد مَنانا اچھی بات ہے، حسینی لنگر پکانا بھی اچھا، کھانا بھی اچھا، بانٹنا بھی ثواب کا کام ہے مگر عرض یہ ہے کہ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہ عنہ کے مؤقف کو کون اپنائے گا؟ آپ کا وہ مشن جس کے لئے آپ کربلا میں تشریف لائے، اس مِشن پر کون چلے گا؟ ذرا غور تَو فرمائیے! جب امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ یزید کے جس بُرے کردار سے خُوش نہ ہوئے تو اگر وہی کردار ہمارا بھی ہو * جو عادتیں یزید کی تھیں، ویسی ہی عادتیں ہماری بھی ہوں * جیسا گَندا اَخْلاق یزید کا تھا، ویسا ہی ہمارا بھی ہو * وہی جاہلیت والی بُرائیاں جو یزید اپنائے ہوئے تھا، انہیں مُعاشرے میں رائج کر رہا تھا، ہم بھی اُنہیں بُرائیوں میں پڑے ہوئے ہوں تو کیا امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ ہم سے خوش ہو جائیں گے...؟ ہر گز نہیں ہوں گے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم سچّے حسینی بنیں۔
یہ آج کا سبق ہم اپنے ذہنوں میں، دِلوں میں پکّا کر کے بٹھا لیں کہ * ہماری زِندگی کا معیار رسمیں نہیں ہیں * ہماری زِندگی کا معیار غیر مسلموں کے طور طریقے نہیں ہیں * ہماری زندگی کا معیار معاشرے کے روَیّے نہیں ہیں بلکہ ایک مسلمان کی زندگی کا معیار رَبّ کا قرآن ہے، اِسْلام کا نُور ہے۔ ارشاد ہوا: