Book Name:Karbala Se Milne Wala Aik Sabaq
یعنی اس سانحہ کو جس شَے نے اہمیت دِی ہے، وہ امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہ عنہ کا یَزِیْد کے خِلاف مؤقف تھا۔ آج یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے * امامِ عالی مقام نے فُرات کے کنارے پر ہوتے ہوئے پیاس بھی برداشت کی * یزیدیوں کی جفائیں بھی دیکھیں * بدبخت یزیدیوں کے گستاخانہ جملے بھی سنے * حضرت علی اَکْبَر سے لے کر حضرت علی اَصْغَر رَضِیَ اللہ عنہما تک اپنے شہزادے بھی قربان کئے * اپنے بھائیوں کے خُون سے لَتْ پَت لَاشے بھی ہاتھوں سے اُٹھائے * اپنے جاں نِثاروں کی قُربانیاں بھی دیکھیں * حضرت عبّاس رَضِیَ اللہ عنہ کے کٹے ہوئے بازُو بھی مُلاحظہ فرمائے * غرض وہ کون سا دُکھ تھا، وہ کون سا غم تھا جو کَرْبلا کے مَیْدان میں امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہ عنہ کے دِل پر نہیں گزرا ہو گا؟ سب ظلم برداشت کئے، سب دُکھ دِل پر سہہ گئے، سُوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ آخر کیوں کیا جا رہا تھا، امام عالی مقام رَضِیَ اللہ عنہ اگر یزید کی بات مان لیتے تو دَولت بھی ملتی، ظاہِری طور پر عزّت بھی ملتی، سب کچھ ہوتا، اس کےباوُجُود آپ نے دُنیا کو ٹھوکر لگائی اور قربانیوں کو قُبُول فرما لیا، آخر اس سب کے پیچھے امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہ عنہ کی سوچ کیا تھی، ذِہن کیا تھا؟ یزید کے خِلاف آپ کا مؤقف کیا تھا؟ یہ مؤقف آج سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے بیان کی ابتدا میں پارہ: 6، سورۂ مائدہ کی آیت:50 سُننے کی سَعَادَت حاصِل کی، اس آیتِ کریمہ کی روشنی میں امامِ عالی مقام رَضِیَ اللہ عنہ کا مؤقف صاف واضِح ہوتا ہے، آپ رَضِیَ اللہ عنہ مکّے سے چلنے سے لے کر میدانِ کربلا میں 10محرم کی صُبح تک جو خطبے دیتے رہے، جو کچھ اِرْشاد فرماتے رہے، وہ سب اِس آیتِ کریمہ کی گویا کہ وَضاحت تھی،