Book Name:Karbala Se Milne Wala Aik Sabaq
سے ملاقات ہوئی، امام عالی مقام رَضِیَ اللہ عنہ نے پُوچھا: کوفے میں لوگوں کی کیا صُورتِ حال ہے؟ فَرَزْدَق بولا: لوگوں کے دِل آپ کے ساتھ ہیں مگر تلواریں یزید کے ساتھ ہیں، آسمان سے فیصلے اُتر چکے ہیں، ہونا وہی ہے، جو اللہ پاک چاہے گا۔
یہ سُن کر امامِ عالی مقام امام حُسَین رَضِیَ اللہ عنہ نے فرمایا: فَرْزَدَقْ! تم نے سچ کہا، حکم پہلے بھی اللہ پاک ہی کا تھا، بعد میں بھی اللہ پاک ہی کا ہو گا۔ جو خُدا چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے، ہر دِن ہمارے رَبّ کی نئی شانیں ہیں۔ اگر تَو خُدا کا فیصلہ وہی ہے جو ہم چاہتے ہیں، تب ہم اس کی نعمت پر اس کی حمد کرتے ہیں، وہی شکر کی توفیق بخشتا ہے اور اگر اللہ پاک کا فیصلہ کچھ اَور ہے، تب بھی جس کی نیّت سچی ہو، جو حق کا پیروکار ہو، جو (صِرْف لوگوں کے سامنے ہی نہیں بلکہ) تنہائیوں میں بھی تقویٰ اِختیار کرنے والا ہو، وہ سرکشی نہیں کرتا (اللہ پاک کے فیصلوں پر سَر جھکایا کرتا ہے)۔ یہ فرما کر امامِ عالی مقام کُوفے کی طرف روانہ ہو گئے۔([1])
راستے میں یزیدی فوج نے آپ کا راستہ روکا، یُوں آپ کربلا پہنچے، پِھر تقدیر کا لکھا پُورا ہوا، امام حُسَیْن رَضِیَ اللہ عنہ اپنے 72 وفادار ساتھیوں کے ساتھ، 10محرم، سَن 61 ہجری کو * میدانِ کربلا میں یزید پلید کے خِلاف، حق کی آواز بلند کرتے ہوئے * نانا کے دِین پر پہرا دیتے ہوئے * ظُلْم سہتے ہوئے * دُکھ اور غم کے پہاڑ کے سامنے ثابِت قَدم رِہ کر * انتہائی عِزّت کے ساتھ * شُجَاعت کے ساتھ * شان و شوکت کے ساتھ شہید ہوئے اور * رہتی دُنیا تک کے لئے باطِل کے خِلاف کھڑے ہونے کا * حق پر چلنے کا * دینداری کا * عزّت سے جینے * عزّت سے مرنے کا * شُجاعت کا * بہادری کا * استقامت کا اور * صبر و رضا کا سبق دے گئے۔