Book Name:Madine Ki Barkatain
اِنَّ الْاِيمَانَ لَيَاْرِزُ اِلَى الْمَدِينَةِ كَمَا تَاْرِزُ الْحَيَّةُاِلَى جُحْرِهَابے شک ایمان مدینے کی طرف سمٹ آتا ہے جیسے سانپ بِل(یعنی سوراخ) کی طرف سمٹ جاتا ہے۔([1])
یہ بڑی ایمان افروز حدیث پاک ہے،عُلَمائے کرام اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: اس حدیث شریف میں آقا عَلَیْہِ السَّلَام نےمدینے میں ایمان کے سمٹنے کو سانپ کے ساتھ تشبیہ دی ہے، یعنی فرمایا کہ جیسے سانپ اپنے بِل(یعنی سوراخ) میں چلا جاتا ہے، ایسے ہی ایمان مدینے میں چلا جائے گا، ذرا غور کریں! سانپ اپنے بِل سے باہر نکلتا ہے، اپنی ضرورت کی چیزیں لیتا ہے، کھانا وغیرہ اس نے ڈھونڈنا ہوتا ہے، وہ ڈھونڈتا ہے، باہر گھومتے گھومتے اس کے اوپر سورج کی دھوپ پڑتی ہے،گرمی پڑتی ہے،گرد پڑتی ہےجس سے اس کی کھال پرانی پڑ جاتی ہے، پھر سال میں کچھ عرصہ وہ ایسے گزارتا ہےکہ وہ چھپ جاتا ہے، باہر نہیں نکلتا، جب اپنا وقت پورا کرنے کے بعد وہ باہر نکلتا ہے تو اس کی کینچلی تبدیل ہو چکی ہوتی ہے، پرانی کھال(Old Skin) اتر جاتی ہے، نئی تازہ چمکدار کھال (Shining Skins) اس کے اوپر آ جاتی ہے۔
یہی بات حدیثِ پاک میں بتائی گئی کہ جس طرح سانپ جب بِل میں جاتا ہے تو اس کی کھال تازہ اور چمکدار ہو جاتی ہے، ایسے ہی جب بندہ دنیا میں ہوتا ہے، دیگر شہروں میں رہ رہا ہوتا ہے تو اس پر شیطان بھی حملہ آور ہوتا ہے، نفس گناہ بھی کروا دیتا ہے،دنیا داری کی طرف دل مائل بھی ہو جاتا ہے ، جس کی وجہ سے ایمان کمزور (Weak)پڑنا شروع ہو جاتا ہے، تب ایمان کو دوبارہ سے تازگی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تازگی کیسے ملتی ہے؟ فرمایا: