Book Name:Naat e Mustafa Ke Fazail
سے شان رَبّ کریم کی ظاہِر ہوتی ہے *ذِکْر ہو زُلْفِ مصطفےٰ کا*ذِکْر ہو رُخِ مصطفےٰ کا *ذِکْر ہو اَوْصاف وکمالاتِ مصطفےٰ کا تو یہ سارے ذِکْر رَبّ کی نشانیاں ہیں کیونکہ اس ذِکْر سے دِل میں محبّتِ اِلٰہی بڑھتی اور رَبّ کا قُرب نصیب ہوتا ہے۔
سیدی اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بڑی خُوبصُورت بات کہی:
تم سے خُدا کا ظہور، اُس سے تمہارا ظہور لِمْ ہے یہ، وہ اِنْ ہوا، تم پہ کروڑوں درود([1])
وضاحت: یہ بڑی باریک بات ہے، ایک ہوتی ہے: دلیلِ لمّی اور ایک ہوتی ہے: دلیلِ اِنِّی۔ میں اِس کو ذرا مثال کے ساتھ آسان کر کے سمجھانے کی کوشش کروں، یُوں سمجھ لیجئے کہ *دُور سے کہیں آپ کو دُھواں اُٹھتا ہوا نظر آئے، آپ فورًا سمجھ جائیں گے کہ کہیں آگ لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ آپ نے آگ کو دیکھا نہیں، شعلے اُٹھتے دِکھائی نہیں دئیے، کسی نے آ کر بتایا نہیں، آپ نے صِرْف دُھواں دیکھا اور جان لیا کہ آگ لگی ہے۔
*اسی طرح جب ہم کہیں آگ جلتی ہوئی دیکھتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ آگ ہے تو دُھواں بھی ہو گا، مثال کے طَور پر آج کل وہ دَور تو نہیں رہا، پِھر بھی اگر ہم گھر میں موم بتی جلائیں تو ذرا احتیاط کے ساتھ جلائی جاتی ہے کہ کہیں موم بتّی کی وجہ سے دِیوار کالی نہ ہو جائے، یعنی ہم سمجھتے ہیں، جانتے ہیں کہ آگ جلے گی تو دُھواں ہو گا۔ یعنی یہ 2پہلو ہیں؛ دُھوئیں کو دیکھ کر آگ کو پہچان لیا، اسے کہتے ہیں: دلیلِ لِمّی۔ دوسرا پہلو ہے: آگ کو دیکھ کر دُھوئیں کی پہچان کر لینا، اسے کہتے ہیں: دلیلِ اِنِّی۔ سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرما رہے ہیں:
تم سے خُدا کا ظہور، اُس سے تمہارا ظہور لِمْ ہے یہ، وہ اِنْ ہوا، تم پہ کروڑوں درود([2])