Book Name:Naat e Mustafa Ke Fazail
ذِکْرِ مصطفےٰ کرنے کی سعادت پاتے ہیں۔
نعت سُنتا رہوں، نعت کہتا رہوں آنکھ پُر نَم رہے، دِل مچلتا رہے
نجمؔ نامِ مُحَمَّد زباں پر رہے ذِکْر ہوتا رہے، سانس چلتی رہے
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے اسلامی بھائیو! یہاں یہ کیسی کمال کی بات ہے کہ رَبِّ کائنات نے اپنے محبوبِ ذیشان، مکی مَدَنی سلطان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی نعتِ پاک کو، آپ کے اَوْصاف و کمالات کو، آپ کی شان و عظمت کے بیان کو حق فرمایا ہے۔
اب سمجھنا یہ ہے کہ حق کیا ہوتا ہے؟ رَبِّ کائنات نے پارہ: 13، سورۂ رَعْد میں حق اور باطِل کا فرق سمجھایا ہے، ارشاد فرمایا:
فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءًۚ-وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِؕ- (پارہ:13، الرعد:17)
تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان: تو جھاگ تو ضائع ہو جاتا ہے اور وہ (پانی) جو لوگوں کو فائدہ دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے۔
یہ حق اور باطِل کی مثال ہے،([1]) خُلاصہ اس کا یہ ہے کہ جب زَور کی بارِش برستی ہے، پانی زمین پر بہنے لگتا ہے، اِس وقت پانی کے اُوپر کچھ جھاگ آجاتی ہے، پِھر یہ جھاگ جلد ہی ختم ہو جاتی ہے مگر جو پانی ہے، وہ مَحْفُوظ رہتا ہے، وہ ختم نہیں ہوتا، اُسے زمین چُوس لیتی ہے، بادَلوں کی صُورت میں ہوا پر سُوار کر دیا جاتا ہے، گلیشئر بنا کرمحفوظ کر دیا جاتا ہے، یہ