Book Name:Hazrat Musa Ki Shan o Azmat
درختوں کے درمیان پائے گئے تھے اور قِبْطِی زبان میں پانی کو ”مُوْ“ اور درخت کو ”سیٰ“کہتے ہیں۔ (تفسیردرمنثور،پ۲۰، القصص، تحت الآية:۴، ۶/۳۹۱)اِسی لئے آپ کا یہ نام رکھا گیا۔ (فیضانِ حضرت آسیہ، ص۲۲)
حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہا کون؟
حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہا فرعون کی بیوی تھیں۔حضرت آسیہ نے جب جادوگروں کو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کے مقابَلے میں مغلوب ہوتے دیکھ لیا تو فوراً اُن کے دل میں اِیمان کا نور چمک اُٹھا اور وہ ایمان لے آئیں۔ جب فرعون کو خبر ہوئی تو اُس ظالم نے اُن پر بڑے ظلم کئے، بہت زیادہ مارنے کے بعد چار(4) کیلیں گاڑ کر حضرت آسیہ کے چاروں ہاتھوں پیروں میں لوہے کی کیلیں ٹھونک کر چاروں کیلوں میں اِس طرح جکڑ دیا کہ وہ ہِل بھی نہیں سکتی تھیں۔اُنہیں دھوپ کی تپش میں ڈال دیا اور بھاری پتھر اُن کے سینے پر رکھنے کا حکم دیا۔ جب پتھر لایا گیا تو حضرت آسیہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہا نے ربِّ کریم کی بارگاہ میں عرض کی:اے ربِّ کریم! میرے لئے جنت میں ایک گھر بنا دے! چنانچہ اُنہیں جنت میں سفید موتیوں سے بنا ہوا اُن کا گھر دکھا دیا گیا اور پھر اللہ پاک نے اُن کی رُوح قَبْض کر لی۔جب اُن کے جسم پر پتھر رکھا گیا تو اُن کے جسم میں رُوح نہیں تھی لہٰذا اُنہیں کچھ بھی درد محسوس نہ ہوا۔اِبنِ کیسان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:وہ زندہ ہی اُٹھا کر جنت میں پہنچادی گئیں، پس وہ جنت میں کھاتی اور پیتی ہیں۔(عمدۃ القاری، کتاب احادیث الانبیاء،باب وضرب اللہ مثل للذین آمنوا… الخ، ۱۱/۱۴۴)
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
اے عاشقانِ رسول!بیان کردہ واقعے سے معلوم ہوا!راہِ خدا میں تکلیفیں اور آزمائشیں برداشت کرنا یہ اللہ والوں کا معمول رہا ہے جیسا کہ ابھی ہم نے سُنا کہ ایمان لانے کے بعد اللہ پاک کی ایک نیک بندی کو اُن کے بد بخت شوہر فرعون نے بہت زیادہ ستایا،لیکن قربان جائیے!اُن کی ہِمّت،اُن کے صَبْر،