Book Name:Bani Israel Ki Gaye
اُنہوں نے حکم نہیں مانا، بےجاسُوالات کرتے گئے، گائے کس قسم کی ہو؟ اُس کا رنگ کیسا ہو؟ اُس کے اَوْصَاف کیسے ہوں؟ یہ جُوں جُوں سُوال کرتے گئے، قیدیں لگتی گئیں اور اُن کو گائے ڈھونڈنا مشکل ہو گیا۔ اِس لئے ہمیں چاہئے کہ دِینی معاملات میں بےجا سُوالات سے بچا کریں۔ حدیثِ پاک میں ہے، مَحْبُوبِ ذِیشان، مکی مَدَنی سُلطان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اِنَّ اللهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا اللہ پاک تمہارے لئے 3باتوں کو ناپسند فرماتا ہے: (1):قِیْلٌ وَ قَالٌ یعنی بے مقصد بحث مباحثہ کرتے رہنا (2):وَکَثْرَۃُ السُّوَالِ بےجا سُوالات کرتے رہنا (3):وَ اِضَاعَۃُ الْمَالِ اور مال کو ضائع کرنا۔([1])
اِن 3باتوں کو اللہ پاک ناپسند فرماتا ہے۔ لہٰذا بےجا سُوالات مَت کیجئے! جو حکم ہو گیا، بس اُس پر عَمَل کیجئے! آج کل ہمارے ہاں یہ ماحول بنتا جا رہا ہے، لوگ بےجا سُوالات کرتے رہتے ہیں: *نمازیں 5ہی کیوں فرض ہیں، 6کیوں نہیں ہیں؟ *رمضان ہی کے روزے کیوں فرض کئے گئے؟ *زکوٰۃ اڑھائی(2.5) فیصد ہی کیوں رکھی گئی؟ *سُود کو حرام کیوں کر دیا گیا؟ *ایک شخص نے مَدَنی چینل پر امیر اہلسنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے پوچھا: جنّت میں ہمیشہ کی زِندگی ہی کیوں ہے؟ اَب یہ پوچھنے کے سُوال تو نہیں ہیں۔ ہاں! اسلامی اَحْکام کی حکمت معلوم کرنا، اِس ذریعے سے اپنا ایمان پکّا کرنا یہ اچھی بات ہے، اس میں حرج نہیں ہے مگر لوگ اِعْتراض والا انداز اِختیار کرتے ہیں۔ بعض نادان تو مَعَاذَ اللہ! اللہ و رسول کو مَشْورے بھی دے رہے ہوتے ہیں، مثلاً ؛ یہ حکم یُوں نہیں یُوں ہونا چاہئے تھا، نمازیں 5نہیں 4 ہوتیں تو اچھا تھا، ایک مہینے کے اکھٹے روزوں کی بجائے ہر مہینے 4