Book Name:Yateemon Ke Huqooq
یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآنِ پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بُری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ آدمی کو اِس بات کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ حرام کھا رہا ہے حالانکہ وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فِعل میں مُلَوِّث ہوجاتا ہے۔([1]) جیسا کہ تفسیر نُور العِرفان میں ہے:جب میت کے یتیم وَارِث ہوں تو مالِ مُشْتَرَک میں سے اس کی فاتحہ تیجہ وغیرہ حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے بلکہ پہلے تقسیم کرو پھر کوئی بالغ وارث اپنے حصّہ سے یہ سارے کام کرے ورنہ جو بھی وہ کھائے گا دوزخ کی آگ کھائے گا۔قیامت میں اس کے مُنہ سے دُھواں نکلے گا۔([2]) حدیث شریف میں ہے: یتیم کا مال ظلماً کھانے والے قیامت میں اس طرح اُٹھیں گے کہ اُن کے مُنہ، کان اور ناک سے بلکہ اُن کی قبروں سے دُھواں اُ ٹھتا ہو گا، جس سے وہ پہچانے جائیں گے کہ یہ یتیموں کا مال ناحق کھانے والے ہیں۔([3])
پیارے آقا نے یتیم کی مدد فرمائی
روایات میں ہے: مکۂ مُکَرّمہ میں ایک یتیم بچہ تھا، اِس اُمّت کے فِرعون یعنی مکہ پاک کے بہت بڑے کافِر ابوجہل نے اس یتیم کی پرورش کی ذِمَّہ داری اپنے سَر لے لی اور وہ سارا مال جو اس بچے کو وراثت میں ملا تھا، وہ بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔