حساب کتاب
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: ایمانیات

موضوع: حساب کتاب(قسط3)

شعبہ ماہنامہ خواتین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ سے پیوستہ:

بروزِ قیامت حساب کتاب کا ذکر جاری ہے، پچھلی قسط میں چند ان خوش نصیبوں کا ذکر ہوا جن کا قیامت کے دن حساب نہ ہو گا جن میں انبیائے کرام،شہدائے کرام، مسلمانوں کے فوت شدہ بچے،عشرۂ مُبَشَّرَہ،پرہیزگار و متقی لوگ، حج و عمرہ کی حالت میں مرنے والوں اور فقرا و مہاجرین کا ذکر شامل تھا،مزید اس بارے میں پڑھتی ہیں:

فرائض کی ادائیگی اور ممنوع کاموں سے بچنا:

جس نے فرائض وسنن پر عمل کیا اور اس کی حدود پامال کرنے سے بچا وہ بلا حساب جنت میں داخل ہوگا۔([1])

اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے بچنا:

شہوات و شبہات کے موقَع پر اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے سچے ورع و تقویٰ کے ذریعے اپنے نفْس کے ساتھ مُجاہَدہ کرنا بھی بلا حساب جنت میں جانے کا سبب ہے۔([2])

وقت پر نماز پڑھنا:

اللہ پاک کے ذمۂ کرم پر عہد ہے کہ جو بندہ وقت میں نماز قائم رکھے اسے عذاب نہ دے اور بے حساب جنت میں داخل کرے۔([3])

زکوۃ ادا کرنے والا:

اس کے لئے خوشخبری ہے جس نے زکوٰۃ اور عشر ادا کیا اور اس کے لئے بھی خوشخبری ہے جس پر قیامت اور زکوٰۃ کا عذاب نہیں ہے۔جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی اللہ پاک نے اس سے عذاب قبر کو اٹھالیا،اس پر جہنم کو حرام کردیا،اس کے لئے بغیر حساب کے جنت واجب کر دی اور اسے قیامت کے دن پیاس نہیں لگے گی۔([4])

زیادہ نیکیاں کرنے والا:

بروزِ قیامت جس کی نیکیاں اس کی برائیوں سے زیادہ ہوں گی وہ بلا حساب وکتاب جنت میں داخل ہو  جائے گا۔([5])

اکیلے میں گناہوں سے بچنا:

قیامت کے دن اللہ پاک حضور کی اُمت کے ایک گروہ کے پَر پیدا فرمائے گا اور وہ ان پَروں سے اُڑ کر قبروں سے نکلتے ہی سیدھے جنت میں جاپہنچیں گے، وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اَندوز ہوں گے اور جہاں چاہیں گے آرام کریں گے،فرشتے ان سے کہیں گے:کیا تم حساب دیکھ آئے ہو؟وہ کہیں گے کہ ہم نے حساب نہیں دیکھا، فرشتے پوچھیں گے:کیا تم پل صراط عبور کر آئے ہو؟ وہ کہیں گے:ہم نے صراط کو نہیں دیکھا۔فرشتے کہیں گے:کیا تم نے جہنم کو دیکھا ہے؟وہ کہیں گے:ہم نے کسی چیز کو نہیں دیکھا۔تب فرشتے کہیں گے: تم کس کی امت میں سے ہو؟ وہ بتائیں گے کہ ہم حضور کی امت ہیں تو فرشتے کہیں گے:ہم تمہیں اللہ کی قسم دیتے ہیں یہ بتاؤ کہ تم دنیا میں کیا عمل کیا کرتے تھے؟وہ کہیں گے کہ ہم میں دو عادتیں تھیں جنہوں نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا ہے اور اللہ کا فضل و رحمت ہمارے شاملِ حال ہے۔ فرشتے کہیں گے:وہ دو عادتیں کون سی تھیں؟وہ کہیں گے: جب ہم اکیلے ہوتے تو گناہ کرتے  ہوئے شرماتے تھے تو کیسے ممکن ہے کہ کھلم کھلا گناہ کرتے اور ہم اللہ پاک کے عطا کردہ معمولی رزق پر راضی ہو گئے تھے۔فرشتے یہ سن کر کہیں گے: تب تو تمہارا یہی بدلہ ہونا چاہئے تھا۔([6])

گناہوں پر رونے والا:

اپنے گناہوں کو یاد کر کے رونے والا بھی بلا حساب جنت میں جائے گا۔([7])

روزِ جمعہ یا شبِ جمعہ انتقال کرنے والے:

جو مسلمان مرد یا عورت شبِ جمعہ یا روزِ  جمعہ انتقال کر جائے تو وہ عذابِ قبر اور امتحانِ قبر سے بچا لیا جاتا ہے اور وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی حساب نہ ہو گا اور قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے ساتھ گواہ یا مہر ہوں گے جو اس کے جنتی ہونے کی گواہی دیں گے۔([8])

بچے کی اچھی تربیت کرنا:

جس نے کسی بچے کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ کہنے(یعنی توحید و رسالت کی گواہی دینے)لگے تو ربِّ کریم اس تربیت کرنے والے کا حساب نہیں لے گا۔([9])

حمد و ذکرکرنے والے:

ربِّ کریم قیامت کےدن لوگوں کو ایک کشادہ و ہموار جگہ میں جمع فرمائے گا،سب پکارنے والےکی پکار کو ایک جیسا سنیں گے اور سب اس کی نگاہ میں ہوں گے، پھر ایک پکارنے والا کھڑے ہو کر پکارے گا:کہاں ہیں وہ لوگ جو خوشحالی اورتنگی میں اللہ پاک کی حمد کرتے تھے؟تھوڑے سے لوگ کھڑے ہوں گے اور بغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔پکارنے والا پھر پکارے گا:وہ لوگ کہاں ہیں جن کی کروٹیں بستروں سے جدا رہتی تھیں؟ پھر کچھ لوگ کھڑے ہوں گے اور بغیر حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ پکارنے  والا پھر پکارے گا:کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں کوئی تجارت اور خرید و فروخت اللہ پاک کی یاد سے غافل نہیں کرتی تھی؟پھر کچھ لوگ کھڑے ہوں گے اور بغیر حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔پھر بقیہ ساری مخلوق کھڑی رہے گی اور ان سے حساب لیا جائے گا۔([10])

امام و مؤذن بھی بلاحساب جائیں گے مگر وہ

جس نے مسجد میں سات سال(ثواب کی نیت سے)نماز کی امامت کرائی اس کے لئے بلا حساب جنت واجب ہو جاتی ہے اور جس نے  40 سال (ثواب کی نیت سے)اذان دی وہ بغیرحساب کے جنت میں داخل ہو گا۔اسی لئے صحابہ کرام کے متعلق مروی ہے کہ وہ(ایثار کی نیت سے)امامت میں ایک دوسرے کو آگے کرتے تھے۔([11])

حاجی،شہید،سخی اور عالمِ باعمل:

قیامت کے دن چار لوگ بلا حساب جنت میں داخل ہوں گے:(1)وہ حاجی جس نے حج کے دوران گناہ نہ کئے ہوں۔(2)وہ شہید جو میدانِ جنگ میں مارا گیا ہو۔(3)وہ سخی جس نے اپنے  مال کو ریا کاری سے آلودہ نہ کیا ہو اور(4)وہ عالِم جس نے اپنے  علم پر عمل کیا ہو۔یہ لوگ ایک دوسرے سے اس بات پر جھگڑیں گے کہ جنت میں پہلے کون داخل ہو گا۔([12])

بیماری پر صبر کرنے والی:

جنون کے مرض میں مبتلا ایک عورت نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یا رسول اللہ  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم !میرے حق میں دعا فرمائیے۔فرمایا:اگر تو چاہے تو میں تیرے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعا کروں کہ وہ تجھے شفا دے اور اگر چاہے تو صبر کر اور تجھ سے حساب نہ ہو۔اس نے عرض کی:میں صبر کروں گی اور مجھ سے حساب نہ لیا جائے۔ ([13])

طالِبِ علم،فرمانبردار بیوی اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والی اولاد:

 ایک مرفوع روایت کے مطابق یہ تینوں بھی جنت میں انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ بغیر حساب داخل ہوں گے۔([14])

تین طرح کےلوگ بغیرحساب جنت میں داخل ہوں گے:

(1)جو اپنے کپڑے دھوئے لیکن اس کےپاس پہننے کے لئے اس کے علاوہ کوئی اورکپڑانہ ہو۔(2)جس کے چولہے پر کبھی دو ہانڈیاں نہ چڑھی ہوں اور(3)جو پینے کے لئے کچھ مانگے لیکن اس سے یہ نہ پوچھا جائے کہ تمہیں کیا چاہئے؟([15])

تین قسم کے لوگ

بے خوف وخطر عرشِ الٰہی کے سائے میں آپس میں گفتگو کرتے ہوں گے جبکہ لوگ حساب کتاب میں پھنسے ہوں گے:(1)جواللہ کریم کے حق کی ادائیگی میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتا۔(2)جس نے اپنے لئے حلال چیز ہی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور(3)جس نےربِّ کریم کی حرام کردہ چیز کی طرف نگاہ نہ کی ہو۔([16])

تین شخص؛

قیامت کے دن سیاہ مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، انہیں گھبراہٹ ہو گی نہ ان کا حساب ہو گا یہاں تک کہ لوگ حساب کتاب سے فارغ ہو جائیں:(1) جس نے رضائے الٰہی کے لئے قرآنِ مجید پڑھا اور لوگوں کی امامت کی نیز وہ لوگ اس سے راضی ہوں۔(2) جس نے رضائے الٰہی کے لئے اذان دی اور  اللہ پاک کی طرف بلایا اور(3)جو دنیا میں کسی کا غلام ہو اور اس وجہ سے وہ طلبِ آخرت سے غافل نہ ہو۔ ([17])

نابینا ہونا:

سب سے بڑی آزمائش جس میں بندے کو مبتلا کیا جائے وہ بینائی کا جانا ہے، پس جس نے صبر کیا یہاں تک کہ اسی حالت میں اللہ پاک سے ملاقات کا شرف پایا تو اس پر کوئی حساب نہیں ہو گا۔([18])اس بات کی تصدیق اس واقعے سے بھی ہوتی ہے: حضرتِ ابو بَصیر  رحمۃُ اللہِ علیہ  نابینا تھے،ایک بار حضرت امام باقِر  رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو آنکھیں روشن ہو گئیں،جب دوبارہ ہاتھ پھیرا تو پھر نابینا ہو گئے۔ پھر ارشاد فرمایا:ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات اختیار کرنا چاہتے ہیں ؟ آنکھیں روشن ہو جائیں اور قیامت کے روز بینائی کی نعمت کا اور دیگر اعمال کا حساب لیا جائے یا نابینا ہی رہیں اور بغیر حساب و کتاب جنّت کا داخلہ نصیب ہو جائے۔ عرض کی: جنّت میں بے حساب داخِلہ چاہئے، مجھے نابینا رہنا منظور ہے۔([19])

حقوق کی ادائیگی کرنے والا:

اپنا محاسبہ یہی ہے کہ انسان مرنے سے پہلے پہلے اپنے ہر گناہ سے سچی پکی توبہ کر لے اور اللہ پاک کے فرائض میں جس قدر کوتاہی کی ہے اس کا مداوا کرے یعنی انہیں ادا کرے اور لوگوں کی پائی پائی انہیں واپس کرے۔اپنی زبان یا ہاتھ سے کسی کو تکلیف دی ہو یا دل میں بدگمانی رکھی ہو تو اس کی معافی مانگے اور لوگوں کے دلوں کو خوش کرے یہاں تک کہ اسے موت آئے تو اس پر کسی کا کوئی حق اور کوئی فرض باقی نہ بچا ہو۔پس ایسا شخص بغیر حساب کتاب کے سیدھا جنت میں جائے گا۔([20])

سورۃ الانعام کی پہلی تین آیات روزانہ پڑھنے والا:

جس نے صبح کی نماز میں  سورۂ انعام  کی ابتدائی تین آیات  یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُوْنَ  تک تلاوت کیں،40 ہزار فرشتے اس کی طرف نازل ہوں گے،جن کے اعمال کی طرح اس کے نامۂ اعمال میں اجر لکھا جائے گا اور سات آسمانوں کے اوپر سے ایک فرشتہ نیچے آئے گا جس کے پاس لوہے کا ہتھوڑا ہو گا۔پس اگر شیطان اس کے دل میں کوئی وسوسہ ڈالناچاہے گا تو وہ فرشتہ اس شیطان کوایک ضرب لگائے گاجس سے اس کے اور شیطان کی درمیان ستَّر پردے آڑ بن جائیں گے،پھر جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ پاک اس سے فرمائے گا:اے میرے بندے!میں تیرا رب ہوں،میرے عرش کے سائے میں چل،حوضِ کوثر سے سیراب ہو،نہرِسَلْسَبِیْل سے غسل کر اور جنت میں بغیر کسی حساب و عذاب داخل ہو جا۔([21])

عفو  و درگزر سے کام لینے والے:

 قیامت کے دن ایک پکارنے والا دو مرتبہ پکارے گا:جس کااجر اللہ پاک کےذمَّۂ کرم پر ہے وہ(بلا حساب)جنت میں داخل ہو جائے۔تو کوئی پوچھے گا:کون ہےجس کا اجر اللہ پاک کے ذِمَّۂ کرم پر ہے؟تو منادی کہے گا: لوگوں سے درگزر کرنے والے۔پھر جب تیسری بار پکارے گا کہ جس کا اجر اللہ کریم کے ذِمَّۂ کرم پر ہے وہ جنت میں داخل ہو جائے تو ہزاروں افراد بغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔([22])

(یہ سلسلہ جاری ہے)



[1] الزھد للامام احمد بن حنبل،  ص240، حدیث:1253

[2] قوت القلوب مترجم،2/536

[3] کنزالعمال،7/127، الحدیث: 19032

[4] مکاشفۃ القلوب مترجم،ص146

[5] کنزالعمال،7/267،الجزء الرابع عشر،حدیث:39744

[6] قوت القلوب، 2/65

[7] احیاء العلوم، 4/  200

[8] شرح الصدور،ص151

[9] معجم اوسط،3/ 371، حدیث:4865

[10] الزھد لھناد، 1/ 134،حدیث:176ملتقطاً

[11] احیاء العلوم ،1/235

[12] تفسیرروح البیان، 3/314

[13]صحیح ابن حبان، 4 /249،حدیث:2898

[14] کنزالعمال،5/69،الجزء العاشر،حدیث:28824

[15] کنز العمال،2/76،الجزء الثالث،حدیث:6075

[16]جامع صغیر،ص/ 215،حدیث:3549

[17]شعب الایمان،3/ 120، حدیث: 3060

[18] مسند بزار، 10/ 244،حدیث:4342ملتقطاً

[19] شواہد النبوۃ، ص242،241

[20] احیاء العلوم ،5/281

[21] تفسیر در منثور، 3/  245،246

[22] معجم اوسط،1/ 542، حدیث: 1998


Share