سلسلہ: تفسیرِ قرآنِ کریم
موضوع: سب کو دوزخ پر سے گزرنا ہوگا
*اُمِّ حبیبہ عطاریہ مدنیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ پاک کا فرمان ہے:
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ(۷۱) ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا(۷۲)
(پ 16،مریم: 71، 72)
ترجمہ: اور تم میں سے ہر ایک دوزخ پر سے گزرنے والا ہے۔ یہ تمہارے رب کے ذمہ پر حتمی فیصلہ کی ہوئی بات ہے، پھر ہم ڈرنے والوں کو بچا لیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرے ہوئے چھوڑ دیں گے۔
تفسیر
اس آیت میں خطاب تمام لوگوں سے ہے اور جہنم پر وارد ہونے سے مراد جہنم میں داخل ہونا ہے۔ البتہ جنت میں جانے والے مسلمانوں پر جہنم کی آگ ایسی ٹھنڈی ہو جائے گی جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہوئی تھی۔ ان کا یہ داخلہ عذاب کے لئے ہوگا نہ وہ خوفزدہ ہوں گے، بلکہ اللہ پاک کے وعدے کی تصدیق کے لئے ہو گا۔([1]) نیز علامہ ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جہنم پر وارد ہونے کا مطلب جہنم میں داخل ہونا نہیں بلکہ اس کے اوپر سے گزرنا ہے جیسا کہ حضرت عبدُ اللہ بن مسعود،حضرت حسن اور حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ جہنم پر وارد ہونے سے مراد پل صراط سے گزرنا ہے جو کہ جہنم کے اوپر بچھایا گیا ہے۔([2])
حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہِ علیہ تفسیر نورُ العرفان میں مذکورہ آیاتِ مبارکہ کے مختلف حصوں کی وضاحت کچھ یوں فرماتے ہیں:
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-
کے تحت فرماتے ہیں: دوزخ جنت کے راستہ میں ہے۔ دوزخ پر پل صراط ہے، سب وہاں سے گزریں گے۔ کفار پار نہ لگ سکیں گے، مومن پار لگ جائیں گے کوئی نورِ نظر کی طرح، کوئی ہوا کی طرح، کوئی تیز گھوڑے کی طرح گزریں گے۔
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا
کے تحت فرماتے ہیں: مسلمانوں کو پل صراط پر بھی دوزخ کی گرمی نہ چھوئے گی بلکہ دوزخ کی آگ پکارے گی کہ اے مومن!جلد گزر جا تیرے نور نے میری لپٹ بجھا دی۔
وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا(۷۲)
کے تحت پل صراط سے پھسل کر دوزخ میں گرنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ کافر وہاں ہمیشہ رہیں گے اور بعض گنہگار مومن جو گر جائیں گے اپنی سزا بھگت کر نکال دئیے جائیں گے۔یہاں ظالم سے مراد کافر ہے اور چھوڑ دینے سے مراد ہمیشہ وہاں رکھنا ہے۔([3])
پل صراط سے متعلق چند اہم معلومات
پل صراط کے متعلق عقیدۂ اہل سنت:
صراط حق ہے۔اس پر ایمان لانا واجب([4]) اور اس کا انکار گمراہی ہے۔([5])
پل صراط کی کیفیت:
یہ ایک پل ہے کہ پُشتِ جہنم پر نصب کیا جائے گا، بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہو گا، جنت میں جانے کا یہی راستہ ہے۔([6]) اور بعض کے لئے کشادہ وادی کی طرح ہو گا۔([7])
پل صراط کی مسافت:
اس بارے میں دو قول ہیں:(1)پل صراط کا سفر تین ہزار سال کی راہ ہے،ایک ہزار سال اوپر چڑھنے کے،ہزار سال نیچے اترنے کے اور ہزار سال اس کی سطح پر چلنے کے۔([8])(2) پل صراط کا سفر 15 ہزار سال کی راہ ہے؛ پانچ ہزار سال اوپر چڑھنے کے، پانچ ہزار سال نیچے اُترنے کے اور پانچ ہزار سال سیدھا چلنے کے۔([9])
سب سے پہلے کون اس پل سے گزرے گا؟
سب سے پہلے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم گزر فرمائیں گے، پھر اور انبیا و مرسلین، پھر یہ اُمّت اور اُمتیں گزریں گی۔([10])
پل صراط سے لوگوں کے گزرنے کی حالت:
ایک مرتبہ حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہِ علیہ نے سورۂ مریم کی یہی آیت تلاوت کی اور فرمایا: تم جانتے ہو کہ دوزخ پر لوگوں کا گزر کس طرح ہو گا؟ پھر خود ہی فرمانے لگے: جہنم لوگوں پر ایسے ظاہر ہو گا گویا چربی کی تہ جمی ہے، جب نیک و بد کے قدم اس پر جم جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا: اے جہنم!اپنے ساتھی پکڑ لے اور میرے ساتھی چھوڑ دے۔پھر جہنم میں جانے والے اس میں گرنے لگیں گے وہ انہیں اس طرح پہچان لے گا جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچانتا ہے، مومن اسے اس طرح پار کر لیں گے کہ ان کے کپڑوں پر کوئی نشان نہیں ہو گا۔([11])
بہارِ شریعت میں لکھا ہے:حسبِ اختلافِ اعمال پُلِ صراط پر لوگ مختلف طرح سے گزریں گے، بعض تو ایسے تیزی کے ساتھ گزریں گے جیسے بجلی کا کوندا کہ ابھی چمکا اور ابھی غائب ہو گیا اور بعض تیز ہوا کی طرح، کوئی ایسے جیسے پرند اڑتا ہے اور بعض جیسے گھوڑا دوڑتا ہے اور بعض جیسے آدمی دوڑتا ہے، یہاں تک کہ بعض شخص سرین پر گھسٹتے ہوئے اور کوئی چیونٹی کی چال جائے گا اور پل صراط کے دونوں جانب بڑے بڑے آنکڑے(اﷲ ہی جانے کہ وہ کتنے بڑے ہوں گے) لٹکتے ہوں گے، جس کے بارے میں حکم ہو گا اسے پکڑ لیں گے، مگر بعض تو زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے اور بعض کو جہنم میں گرا دیں گے اور یہ ہلاک ہوا۔([12])
سب سے آخر میں گزرنے والا:
پل صراط سے گزرنے والا آخری شخص پیٹ کے بل گھسٹ گھسٹ کر گزرے گا، وہ اللہ کریم کی بارگاہ میں عرض کرے گا:یا اللہ! مجھے اتنی دیر کیوں لگی؟اللہ کریم ارشاد فرمائے گا:تجھے میں نے دیر نہیں کروائی بلکہ تجھے تیرے اعمال نے دیر کروائی ہے۔([13])
پل صراط پر کام آنے والے اعمال:
(1)درود شریف کی کثرت۔(2)مسلمانوں کی پریشانی دور کرنا۔(3)صدقہ دینا اور بیوہ کی حاجت روائی کرنا۔(4)بھلائی کے کام میں سفارش کرنا۔(5)مسلمان کی عزت کی حفاظت کرنا۔(6)مسواک کرنا۔([14])(7)خوفِ خدا کے باعث کمزور و نڈھال ہونا۔([15])
امام غزالی کی نصیحت:
پل صراط سے گزرنے کا مرحلہ انتہائی مشکل ہے۔ امام محمد غزالی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: لوگ صراط کی طرف ہانکے جائیں گے، وہ جہنم کے اوپر بنایا گیا ایک پل ہے جو تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ لہٰذا جو اس جہاں میں صراطِ مستقیم یعنی سیدھے راستے پر ثابت قدم رہا وہ پل صراط پر ہلکا ہو گا اور نجات پائے گا اور جو دنیا میں سیدھے راستے سے پھرا اور اپنی پیٹھ پر نافرمانیوں اور گناہوں کا بوجھ لادا تو وہ پہلے قدم ہی میں پل صراط سے پھسل کر گر جائے گا۔ جب یہ سارے خطرے تیرے سامنے ہوں گے تو بتا اس وقت تو اپنی عقل کو کیسا دیکھتا ہے؟ اگر تو ان سب پر ایمان نہیں رکھتا تو پھر تو کفار کے ساتھ درکاتِ جہنم میں ہمیشہ رہنا چاہتا ہے اور اگر تو ایمان رکھتا ہے لیکن اس سے غفلت اور اس کی تیاری کے معاملے میں سستی کا شکار ہے تو تیرا نقصان اور سرکشی بہت بڑی ہے،تیرا ایسا ایمان تجھے کیا فائدہ دے گا جو تجھے گناہ چھوڑنے اور عبادات کرنے کے ذریعے اللہ پاک کی رضا پر بھی نہیں ابھار رہا!اگر تیرے سامنے صرف پل صراط کی ہولناکی اور اس پر سے گزرنے کا دل دہلا دینے والا خطرہ ہی ہو اگرچہ تو سلامتی کے ساتھ گزر بھی جائے تو پھر بھی یہ ڈر و خوف کیا تیری کمر توڑنے کے لئے کم ہے؟ ([16])
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز فیضانِ اُمِّ عطار
گلبہارسیالکوٹ
[1] تاویلاتِ اھلِ السنۃ، 7/252، 253ملخصاً
[2] تفسیر بحر محیط، 6/197
[3] تفسیر نور العرفان، ص494
[4] کتاب شرح الصاوی علی جوھرۃ التوحید، ص389
[5] المعتقد المنتقد، ص335
[6] بہار شریعت، 1/147، حصہ:1
[7] شعب الایمان، 1/333، حدیث:367
[8] عمدۃ القاری، 13/482
[9] البدور السافرہ، ص334، رقم:1025
[10] بہار شریعت، 1/147، حصہ:1
[11] حلیۃالاولیاء،5/403، رقم:7527
[12] بہار شریعت، 1/147، 148حصہ:1
[13] التذکرہ، ص318
[14] ماہنامہ فیضان مدینہ اپریل2019، ص35ماخوذاً
[15] البدور السافرہ، ص344، رقم:1025
[16] احیاء العلوم، 5/285ملتقطاً
Comments