سلسلہ:معجزاتِ انبیا
موضوع: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات (قسط4)
شعبہ ماہنامہ خواتین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات کا ذکر جاری ہے۔پچھلی قسطوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی سے شادی تک کے واقعات ذکر ہو چکے ہیں،اب مصر واپسی کے دوران نبوت ملنے اور اس کے بعد کے معجزات و عجائبات ذکر کئے جائیں گے:
مصر واپسی کے دوران نبوت سے سرفرازی
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب حضرت شعیب کی اجازت سے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر واپس مصر کی طرف روانہ ہوئے تو یہ سخت سردی کا موسم تھا، دورانِ سفر اندھیری رات میں آپ نے کوہِ طور کی طرف ایک آگ دیکھی تو بیوی سے فرمایا: تم یہیں ٹھہرو،میں آگ کی چنگاری لے کر آتا ہوں۔چنانچہ آپ اس آگ کے قریب ہوئے تو دیکھا کہ آگ شعلے مار رہی ہے،مزید قریب آئے تو آگ نے شدت اختیار کر لی،عجیب منظر یہ تھا کہ آگ ایک سر سبز درخت سے نکل رہی تھی اور جوں جوں آگ تیز ہوتی درخت کے پتے بھی زیادہ سبز ہوتے چلے جاتے،آپ اسی منظر میں گم تھے کہ آواز آئی:
اِنِّیْۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَۚ-اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىؕ(۱۲) (پ16،طٰہٰ:12)
ترجمہ: بیشک میں تیرا رب ہوں تو تو اپنے جوتے اتار دے بیشک تو پاک وادی طویٰ میں ہے۔
اللہ کے فضل و کرم سے آپ سمجھ گئے کہ یہ قدرت سوائے رب پاک کے اور کسی کی نہیں ہو سکتی اور یہ کلام اللہ ہی کا ہے۔([1]) تفسیر نور العرفان میں ہے کہ یہ آواز اس درخت سے آ رہی تھی وہ درخت اللہ نہ تھا بلکہ اس کے کلام کا مظہر تھا،جیسے ریڈیو کی پیٹی نہیں بولتی بلکہ بولنے والے کی آواز کا مظہر ہوتی ہے۔([2])پھر ارشاد ہوا:
وَ اَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰى(۱۳) (پ 16، طٰہٰ: 13)
ترجمہ:اور میں نے تجھے پسند کیا تو اب اسے غور سے سن جو وحی کی جاتی ہے۔
یعنی یہیں آپ کو نبوت و معجزات عطا ہوئے اور رب کریم سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا۔ چنانچہ اللہ پاک کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے آپ ایک پتھر سے سہارا لے کر کھڑے ہو گئے اور اپنے سیدھے ہاتھ کو الٹے ہاتھ پر رکھا،ٹھوڑی کو سینے سے لگایا اور کامل طریقے سے اللہ پاک کے کلام کو سننے کی طرف متوجہ ہو گئے۔([3]) یہ بھی منقول ہے کہ یہ کلام آپ نے صرف اپنے کانوں سے نہیں بلکہ اپنے جسمِ اقدس کے ہر ہر عضو سے سنا اور سننے کی قوت اتنی عام ہوئی کہ تمام جسمِ اقدس ہی کان بن گیا۔ ([4])
رب العٰلمین سے مکالمہ اور عطائے معجزات
اس مقام پر اللہ پاک نے آپ سے کلام فرمایا اور آپ کو دو معجزات عطا فرمائے: عصا کا اژدھا بن جانا اور ہاتھ کا چمک دار ہوجانا، چنانچہ اللہ پاک نے آپ سے فرمایا: عصا کو زمین پر ڈال دو،آپ نے عصا زمین پر ڈالا تو وہ اچانک سانپ بن کر تیزی سے دوڑنے لگا اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو کھانے لگا،یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو(طبعی طور پر) خوف ہوا تو ارشاد ہوا:اسے پکڑ لو ڈرو نہیں!ہم اسے دوبارہ پہلی حالت پر لوٹا دیں گے، آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اس کے منہ میں ڈالا تو وہ آپ کے ہاتھ لگاتے ہی پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ ([5])
خیال رہے! قرآن مجید میں عصائے موسیٰ کے سانپ بن جانے کے لئے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:حَیَّۃٌ،جَآنٌّ اور ثُعْبَانٌ۔ حَیَّۃٌ کسی بھی سانپ کو کہا جاتا ہے، بڑا ہو یا چھوٹا، مُذکَّر ہو یا مؤنَّث۔ثُعْبَانٌ بہت بڑے جسم والے سانپ کو کہا جاتا ہے اور جَآنٌّ باریک سانپ کو کہتے ہیں۔ ایک ہی سانپ کے لئے تینوں الفاظ کا استعمال کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جب آپ عصا زمین پر ڈالتے تو شروع میں وہ باریک سانپ بن جاتا پھر آہستہ آہستہ پھیلتا جاتا اور بڑا اژدھا بن جاتا۔ یا دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ جسم کے لحاظ سے بہت بڑا اژدھا بن جاتا مگر دوڑ اور پھرتی میں باریک سانپ کی طرح ہوتا۔ ([6])
دوسرا معجزہ جو آپ کو دیا گیا وہ آپ کے ہاتھ کا چمک دار ہونا ہے،چنانچہ ارشاد ہوا: اپنا ہاتھ اپنی قمیص کے گریبان میں ڈال کر نکالو تو وہ کسی بیماری کے بغیر سفید اور چمک دار ہوجائے گا،آپ نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالا تو ویسا ہی چمک دار نکلا۔فرمایا:اب اسے اپنے ساتھ ملالو تاکہ یہ اپنی اصلی حالت پر لوٹ آئے اور خوف دور ہوجائے۔
خصائصِ معجزاتِ موسیٰ
اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خاص طور پر عصا و یدِ بیضا کا معجزہ ہی کیوں عطا فرمایا؟اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام انبیائے کرام کو ان کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزات عطا کیے گئے،مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں علم طب و حکمت کا زور تھا تو آپ کو مُردوں کو زندہ کرنے، پیدائشی اندھوں کو بینائی بخشنے اور برص والوں کو اچھا کرنے کے معجزات عطا کیے گئے جس سے تمام اطبا و حکما عاجز رہے۔اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دور میں فصاحت کا زور تھاتو حضور کو قرآنِ پاک جیسا عظیمُ الشان معجزہ عطا فرمایا گیا کہ بڑے بڑے فصحا اس کی ایک آیت کی مثل لانے سے بھی عاجز رہے۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جادو کا بڑا زور تھا اور جادوگر کثیر تعداد میں تھے لہٰذا آپ کو ایسا معجزہ دیا گیا جس سے آپ نے جادوگروں کا مقابلہ کیا اور ان کو عاجز کر دیا۔ ([7])
نیز معجزہ اس چیز کو کہتے ہیں جو خلافِ عادت ہو، اللہ پاک اپنے نبیوں و رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے یہ عطا فرماتا ہے، نبیوں اور رسولوں کو معجزات اس لئے عطا ہوتے ہیں کہ وہ ان کی نبوت و صداقت پر دلیل،جھٹلانے والوں کے خلاف حجت اور حق سے پھرنے والوں کے لئے چیلنج ہوں، یوں تو نبی کی سچائی کے لئے ایک معجزہ بھی کافی ہوتا ہے مگر بعض انبیا و رسل ایسے گزرے ہیں جنہیں ان کی قوم کی اکھڑ مزاجی اور طبیعت کی سختی کی وجہ سے کثیر معجزات دیئے گئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی انہی انبیا میں سے ہیں جنہیں ان کی قوم کے مزاج کی سختی، جھٹلانے کی شدت اور فرعون کی سرکشی و زیادتی کی وجہ سے کثیر معجزات عطا فرمائے گئے، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر انبیا علیہم السلام اپنی ہی قوم کی طرف مبعوث ہوئے جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کے علاوہ قومِ فرعون کی طرف بھی بھیجے گئے اور قومِ فرعون کی جہالت تمام اقوام کی جہالت سے زیادہ تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات و عجائبات چونکہ بہت زیادہ ہیں اور موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ان معجزات و عجائبات کو ایک جگہ سمیٹے بغیر سمجھنا بہت مشکل ہے،لہٰذا آسانی کے لئے ان کو دو قسموں کے تحت ذکر کیا جارہا ہے:
1) وہ معجزات جن کا ظہور فرعون اور اس کی قوم کے لئے ہوا،
2) وہ معجزات جن کا ظہور بنی اسرائیل کے لئے ہوا۔
(یہ سلسلہ جاری ہے اور ان شاء اللہ اگلی قسطوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نبی بننے کے بعد کے معجزات و عجائبات بیان ہوں گے۔ )
Comments